اھل بیت علیھم السلام اور ان کے وجود پر شکر نعمت



اور یہ وجوب بغیر کسی زحمت اور تکلیف کے واضح اور روشن ھے، بے شک اس طرح کے حکم سے روگردانی حرام اور گناہان کبیرہ میں شمار ھوتی ھے، اور یہ ان گناھوں میں سے ھے کہ جن کے بدلے خدائے قہار نے واضح طور پر حتمی عذاب کا وعدہ کیاھے۔

آیہٴ شریفہ میں غور Ùˆ فکر کریں کہ خدائے مہربان Ù†Û’ ماں باپ سے نیکی Ùˆ احسان میں کوئی قید نھیں لگائی مثال Ú©Û’ طور پر اس Ù†Û’ یہ نھیں فرمایا کہ ان Ú©Û’ ساتھ نیکی Ùˆ احسان کرو اور ان Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ نعمت پر شکر کرو اس شرط Ú©Û’ ساتھ کہ اگر تم مسلمان یا مومن ھو، اور ان کا شکر یہ Ú¾Û’ کہ جب تک وہ زندہ رھیں ان Ú©Û’ ساتھ نیکی Ùˆ احسان اور ان کا احترام کرتے رھو اور ان Ú©Ùˆ ذرہ برابر بھی رنج Ùˆ پریشانی نہ ھو، اگرچہ انھوں Ù†Û’ اپنی اولاد Ú©Û’ ساتھ نامناسب اور تلخ بلکہ زہر سے بھی زیادہ تلخ برتاوٴ  کیا Ú¾ÙˆÛ”

خداوندعالم کا یہ حکم سب سے زیادہ سخت ھے اور اس پر عمل کرنا بھی دشوار ھے، لیکن سب پر واجب ھے کہ والدین کی نسبت خدا کے اس حکم کو قبول کریں اور اس پر عمل کریں اور اس سلسلہ میں اپنے اندر شک و تردید پیدا نہ ھونے دیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

”اِنَّ رَجُلاً اٴَتَی النَبِيَّ(صلی الله علیه Ùˆ آله Ùˆ سلم)  فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اٴَوْصِنِي، فَقَالَ: لاَ تُشْرِک بِاللّٰہِ شَیئاً وَاِنْ حُرِّقْتَ بِالنَّارِ وَعُذِّبتَ اِلاّ وَقَلبُکَ مُطمَئِنٌّ بِالِایمَانِ، وَوَالِدَیکَ فَاٴطِعْھُمَا وَبِرَّھُمَا حَیَّیْنِ کَانَا اٴوْ مَیِّتَیْنِ، وَاِن اَمَرَاکَ اٴن تَخْرُجَ مِن اٴھلِکَ وَمَالِکَ فَافعَلْ، فَاِنَّ ذَلِکَ مِن الاٴِیمَانِ“۔[3]

”ایک شخص پیغمبر اکرم (صلی الله علیه Ùˆ آله Ùˆ سلم) Ú©ÛŒ خدمت میں آیا اور اس Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ: یا رسول الله! مجھے نصیحت فرمائیں، آنحضرت (صلی الله علیه Ùˆ آله Ùˆ سلم) Ù†Û’ فرمایا: خدا Ú©Û’ ساتھ شرک نہ کرو اگرچہ توحید Ú©Û’ مسئلہ میں تمھیں Ø¢Ú¯ میں جلایا جائے اور تمھیں شکنجہ دیا جائے ان Ú©Ùˆ برداشت کرلو مگر یہ کہ تمہارا دل ایمان پر مطمئن ھو، اور اپنے والدین Ú©ÛŒ اطاعت کرو اور ان Ú©Û’ ساتھ نیکی Ùˆ احسان کرو چاھے وہ زندہ Ú¾ÙˆÚº یا اس دنیا سے جا Ú†Ú©Û’ ھوں، اور اگر تمھیں Ø­Ú©Ù… دیں کہتم اپنے بیوی بچوں اور گھر بار سے Ù†Ú©Ù„ جاؤ  تو اس کا قبول کرنا ایمان کا جزء ھے“۔

چار افراد جو صدر اسلام میں خداوندعالم کی خاص عنایتوں کے زیر سایہ تھے اور ان کو خدا کی طرف سے سلام پہنچا تھا ان میں سے جناب مقداد بھی تھے۔

ایک روز میدان جہاد اور کارزار میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) سے عرض کی: میرا باپ دشمن کے مورچہ میں اور آپ کے خلاف جنگ کے لئے آیا ھے، کیا اجازت ھے کہ میں اس پر حملہ کرکے کام تمام کردوں؟!

آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: نھیں، یہ کام کوئی دوسرا انجام دے، کیونکہ اگر تم راہ خدا اور فی سبیل الله جہاد میں اپنے باپ کو قتل کروگے تو تمہاری عمر کم ھوجائے گی!!

جی ہاں، خدا وندعالم کی طرف سے یہ ماں باپ کا حق ھے، چاھے ماں باپ مسلمان ھوں یا کافر ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next