اسلامى تہذيب ميں انتظامي اور اجتماعى ادارے



 

يہ واضح سى بات ہے كہ فتوحات كے دور كے بعد وسيع و عريض اسلامى سرزمين ايك وسيع ، پيچيدہ دقيق اور نگہبان دفترى نظام كى محتاج تھى _ يہ ادارتى نظام انتہائي توجہ كےساتھ اس سرزمين كى درآمدت كو كنٹرول كرتا اور انكا دقيق حساب و كتاب كرتا بالخصوص وہ جو بيت المال سے ہميشہ اپنا خرچ ليتے ان ميں دقت كےساتھ مال تقسيم كرتا_ اسى طرح اسلامى سرزمين كے گردو نواح ميں جو فوجى دستے بھيجے جاتے انكى نگرانى كرتا اوروہ سپاہى جو اسلامى سرزمين كى سرحدوں پر نگہبانى كى ڈيوٹى دے رہے ہيں انكى ضروريات اور خرچ كو مخصوص وقفوں كے ساتھ بھيجتا اسى طرح كہ اسلامى سرزمينوں كے اندر بھى لوگوں كى زندگى پر نظارت كى جاتى _ شعبہ عدليہ لوگوں كے مسائل اور جھگڑے نمٹاتا اسى طرح دسيوں ديگر ذمہ دارياں تھيں كہ جنہيں يہ اسلامى سلطنت كے شعبہ جات نمٹاتے _

دوسرى طرف سے اسلامى مملكت ÙƒÛ’ اس پيچيدہ نظام كى تشكيل كيلئے مضبوط بنياد كى ضرورت تھى كہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس تمام سرزمين كى كل درآمد (اگر چہ اندازہ ÙƒÛ’ طور پر ہى )كتنى ہے اور يہ مقدار كس قدر زمين سے كس قسم ÙƒÛ’ ٹيكس ÙƒÛ’ ساتھ اور كس وقت اكٹھى كى جاسكتى ہے _اسى طرح رقم اور سكّے كہ جو اس سرزمين ميں رائج تھے اسطرح بنائے جائيں كہ اس مملكت كى تمام وسيع حدود ميں لوگ ان سے فائدہ اٹھاسكيں_ راستے تلاش كرنے ÙƒÛ’ بعد بنائے جاتے اور پل تعمير كيے جاتے تا كہ خلافت ÙƒÛ’ مركز سے جو احكامات صادر ہوں وہ سرعت كےساتھ اپنے مقصد تك پہنچيں  _

فتوحات كے دور كے بعد اسلامى سرزمينوں پر جب كسى حد تك امن و سكون كى فضا چھائي تو خلفاء نے ادارى نظام اور شعبہ جات كى تشكيل كيلئے قدم اٹھائے اسطرح كے بہت سے كام دوسرے خليفہ نے بالخصوص حضرت على (ع) كى راہنمايى ميں انجام ديے _ ان ميں سے كچھ مندرجہ ذيل ہيں :

1_ اسلامى سرزمين كو حكومتى اور سياسى طور پر چھوٹے چھوٹے ٹكڑوں ميں تقسيم كرنا اور ہر ايك كيلئے گورنر كا انتخاب كرنا 2_اسلامى سرزمين كى پيمائشے بالخصوص زرخيز علاقوں كى سالانہ درآمد كا اندازہ لگانے كيلئے پيمائشے اورتخمينہ3_ زراعتى زمينوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے جديد جنترى بنانا 4_ پيمانوں كى پيمايش ، وزن حجم اور فاصلے كى اكائيوںكو يكسان كرنا 5_ سكوں كو يكسان بنانا ،مالى منفعت كے حامل سرٹيفكيٹس كو رائج كرنا اور اس قبيل كے ديگر كام (1)

فتوحات كے بعد كے سالوں ميں اسلامى ممالك ميں بڑے بڑے شہر عرصہ وجود ميں آئے يہ شہر يا تو انہى شہروں كا پھيلاؤ تھا كہ جو اسلام سے پہلے موجود تھے يا مكمل طور پر اسلام كے بعد تشكيل پائے _ بڑے بڑے شہروں ميں لوگ مجبور تھے كہ ان قوانين كے تحت زندگى گزاريں كہ جو اس دور كى حكومت بناتى تا كہ سب لوگ آرام و سكون سے زندگى گزار سكيں كوئي كسى كے حق پر تجاوز نہ كرسكے _ بہر حال ان بڑے شہروں كے وجود ميں آنے سے ديوانات اور مختلف محكمہ جات كى ضرورت اسلامى تمدن ميں ناگزير تھي_

 

ديوان خراج يا استيفاء:

اسلام ميں جو سب سے پہلا اور اہم ترين ديوان تشكيل پايا اسكا نام ديوان خراج يا ديوان استيفاء تھا_ اس ديوان كى ذمہ دارى يہ تھى كہ وہ اسلامى سرزمينوں كے ايك بڑے حصے كى مالى امور ميں سرپرستى كرے _ اس ديوان ميں اسلامى سرزمينوں كے اموال و متاع كى فہرست بنا ئي جاتى تھى اس ديوان كے كاموں كى تفضيل يہ ہے كہ : ان سرزمينوں سے خراج اكھٹا كرنے كا طريقہ ، پھر انہيں مركز خلافت كے حوالے كرنا ، انكا مسلمانوں كے درميان تقسيم كا طريقہ اور خراج وصول كرنے كيلئے مسلمانوں ميں عہدوں كى درجہ بندى و غيرہ _

جوں جوں اسلامى سرزمين وسعت پاتى گئي اور ساتھ ساتھ مسلمان بھى ديگر اقتصادى روشوں اور طريقہ كاروں سے آشنا ہوتے گئے مثلا زمين سے بہرہ مند ہونے كى مختلف روشيں و غيرہ تو ديوان خراج كى ذمہ داريوں اور سرپرستى كادائرہ بھى بڑھنے اور پيچيدہ ہونے لگا ايك دورانيے (term)ميں اسلامى سلطنت كي

---------------------



1 2 3 4 5 6 7 next