حضرت علی عليه السّلام



  جس Ù†Û’ زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا ہو،  ÙˆÛ بعد رسول ان Ú©ÛŒ لاش Ú©Ùˆ کس طرح Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ سکتا تھا، لہذا رسول Ú©ÛŒ تجہیز وتکفین اور غسل کا تمام  Ú©Ø§Ù… علی علیہ السّلام نےاپنے  ÛØ§ØªÚ¾ÙˆÚº سے انجام دیا اور رسول اللہ (ص)کواپنے ھاتھوں سے  Ù‚بر میں  Ø±Ú©Ú¾ کر دفن کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام کی طاہری خلافت
رسول اللہ (ص) Ú©Û’ بعدحضرت  Ø¹Ù„ÛŒ علیہ السّلام Ù†Û’ پچیس برس خانہ نشینی میں بسر کئے۔ جب سن  Û³Ûµ ھجری قمری میں مسلمانوں Ù†Û’ خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی علیہ السّلام Ú©Û’ سامنے پیش کیا تو  Ù¾ÛÙ„ےتو آپ Ù†Û’ انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھا تو آپ Ù†Û’ اس شرط سے منظو رکرلیا کہ میں قران اور سنت ُ پیغمبر(ص) Ú©Û’ مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں Ù†Û’ اس شرط Ú©Ùˆ منظور کر لیا  ØªÙˆ آپ Ù†Û’ خلافت Ú©ÛŒ ذمہ داری قبول Ú©ÛŒ- مگر زمانہ آپ Ú©ÛŒ خالص دینی حکومت Ú©Ùˆ برداشت نہ کرسکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنھیں آپ Ú©ÛŒ دینی حکومت Ú©ÛŒ وجہ سے آپنے اقتدار Ú©Û’ ختم ہوجانے کا خطرہمحسوس ہو گیا  ØªÚ¾Ø§ØŒ وہ آپ Ú©Û’ خلاف  Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوگئے۔ آپ Ù†Û’ ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا،جس Ú©Û’ نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان Ú©ÛŒ جنگیں ہوئیں . ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السّلام Ù†Û’ اس شجاعت اور بہادری سے جنگ Ú©ÛŒ جو بدر، احد، خندق، وخیبرمیں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ Ú©Ùˆ یاد تھی .ان جنگوں Ú©ÛŒ وجہ سے آپ Ú©Ùˆ اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اس طرح اصلاح فرماتے جیساکہ آپ کا  Ø¯Ù„ چاہتا تھا . پھر بھی آپ Ù†Û’ اس مختصرسی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی،  مساوات اور نیک کمائی Ú©Û’ لیے محنت ومزدوری Ú©ÛŒ تعلیم Ú©Û’ نقش تازہ کردئے۔ آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے Ú©Û’ باوجود کجھوروں Ú©ÛŒ دکان پر بیٹھنا اور آپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ پیوند Ù„Ú¯Û’ ہوئے Ú©Ù¾Ú‘Û’ پہنتے تھے، غریبوں Ú©Û’ ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے . جو مال بیت المال میں اتا تھا اسے تمام حقداروں Ú©Û’  درمیان برابر تقسیم کردیتے تھے Û” یہاں تک کہ آپ Ú©Û’ سگے بھائی عقیل نےجب  ÛŒÛ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے Ú©Ú†Ú¾ زیادہ مل جائے،تو  Ø§Ù“Ù¾ Ù†Û’ انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے ØŒ لہذا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز Ú©Ùˆ دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ  ÛÛ’ کہ اگرآپ کبھی رات Ú©Û’ وقت بیت المال میں حساب وکتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات Ú©Û’ لیے آجاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ Ú©Ùˆ  Ø¨Ú¾Ø¬Ø§Ø¯ÛŒØ§ کرتے تھے اور کہتے تھے  Ú©Û بیت المال Ú©Û’ چراغ Ú©Ùˆ میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہئے . آپ Ú©ÛŒ کوشش یہ رہتی تھی کہ جو Ú©Ú†Ú¾ بیت المال میں ائے وہ جلد سے جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال Ú©Ùˆ جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت

جنگ نھروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نھروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔

ابن ملجم Ù†Û’ حضرت علی (ع) Ú©Û’ قتل کا عھد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک Ú©ÛŒ شب Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ú©Û’ ساتھ مسجد کوفہ  Ù…یں آکر بیٹھ گیا Û” اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی Ú©Û’ گھر مھمان تھے اور صبح Ú©Ùˆ  ÙˆØ§Ù‚ع ھونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ Ú©Ùˆ اپنی بیٹی Ú©Û’ سامنے بیان کیا تو ام کلثوم Ù†Û’ کہا کہ Ú©Ù„ صبح آپ Û”Û”Û”Ú©Ùˆ مسجد میں بھیج دیجئے Û”

حضرت علی (ع) Ù†Û’ فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر Ú©Û’ پٹکے Ú©Ùˆ کس کر باندھا اور  Ø§Ø³ شعر Ú©Ùˆ گنگناتےہوئے مسجد Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوگئے Û”

” اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔

اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو “۔

حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :

”ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔

حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :

” میں تمہیں پرھیز گاری Ú©ÛŒ وصیت کرتا Ú¾ÙˆÚº اور وصیت کرتا Ú¾ÙˆÚº کہ تم اپنے تمام امور Ú©Ùˆ منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں Ú©Û’ درمیان اصلاح Ú©ÛŒ فکر کرتے رھو Û” یتیموں Ú©Ùˆ فراموش نہ کرو Û” پڑوسیوں Ú©Û’ حقوق Ú©ÛŒ رعایت کرو Û” قرآن Ú©Ùˆ اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز Ú©ÛŒ بہت زیادہ قدر کرو، کیوں  Ú©Û یہ تمھارے دین کا ستون Ú¾Û’ “۔

آپ Ú©Û’ رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ Ú©Û’ قاتل Ú©Ùˆ گرفتار کرکے آپ Ú©Û’ سامنے لا یا گیا، اورآپ Ù†Û’ دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ Ú©Ùˆ اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے  Ø¯ÙˆÙ†ÙˆÚº بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام Ú©Ùˆ ہدایت فرمائی کہ یہ  ÛÙ…ارا قیدی ہے اس Ú©Û’ ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو Ú©Ú†Ú¾ خود کھانا وہ اسے کھلانا،  اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ Ù†Û’ اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس Ù†Û’ مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے Û” اور ہر گز اس Ú©Û’ ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی  ØªØ¹Ù„یم Ú©Û’ خلاف ہے۔

حضرت  Ø¹Ù„ÛŒ علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب Ùˆ بیچینی  Ú©Û’ ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان Ú©Ùˆ نمازِ صبح Ú©Û’ وقت آپ Ú©ÛŒ روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن Ùˆ امام حسین علیہما السّلام Ù†Û’ تجہیزو تکفین Ú©Û’ بعد آپ Ú©Û’ جسم اطہر Ú©Ùˆ نجف میں دفن کر دیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7