آج کے دور میں اسلامی قوانین کی معنویت



جب تک مسلمان شعوری طور پر اس نظام سے وابستہ رہے ان کی ترقی وتوسیع کا سلسلہ جاری رہا، وہ جہاں گئے ارض وفلک نے ان کا استقبال کیا لوگوں نے اپنی پلکیں بچھائیں اور دنیا نے ان کا خیرمقدم کیا اس لئے کہ وہ ایسا نظام حیات جاری کرنے گئے تھے جو امن وخوشحالی، ترقی واستحکام اور داخلی وخارجی سکون کا دائمی ضامن ہے ۔

 

زوال کا سبب

 

لیکن جب مسلمانوں کا رشتہ شعوری یا غیرشعوری طورپر اس نظام سے کمزور ہوا تو وہ بھی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگے اور ان کی قومی واجتماعی زندگی پر زوال کی پرچھائیاں پڑنے لگیں اس لئے کہ اجتماعی زندگی کیلئے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے اور کسی بھی اجتماع کے ٹوٹنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نظام کو توڑ دیا جائے یا مشتبہ کردیا جائے جس سے وہ اجتماع جڑا ہوا ہے، کسی بھی قوم کا زوال اسی نقطہ سے شروع ہوتا ہے خواہ اس کا ادراک قوم کے بڑے طبقے کو ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، مسلمانوں نے جو خدائی قانون اور اسلامی نظام روئے زمین پر نافذ کیا تھا اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت سے تھے، اس نظام کی ترجیحات میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا تھا ۔ دوسری اقوام اور اقلیتوں کو بھی تمام انسانی حقوق دئیے گئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت دینے والوں کی اور دوسری اقوام کی لینے والوں کی تھی، لیکن جب اسلامی نظام کی جگہ دوسرا نظام آیا اور اجتماعیت دین سے کٹ کر غیردینی نظام سے جڑگئی تو اس نئے نظام میں تمام ترجیحات دوسروں کے لئے ہوگئیں اوراس کی اگلی صفوں میں ایسے لوگ براجمان ہوگئے جن کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی اس لئے اب مسلمانوں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہ تھا ۔

 

اگر اس موقعہ پر بھی مسلمانوں کی قومی غیرت اور دینی حس جاگ اٹھتی تو وہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرسکتے تھے اور اس نئے مصنوعی نظام سے پیچھا چھڑاسکتے تھے مگر افسوس کہ مسلمانوں کے حکمراں طبقے کی غالب اکثریت ایسی مجرمانہ غفلت کی شکار رہی اور جھوٹی مصلحتوں اور عارضی لذتوں کے وہ ایسے دلدادہ رہے کہ ان کی ساری حس ہی مردہ ہوکر رہ گئی، بقول شاعر

 

 ÙˆØ§Ø¦Û’ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next