عالم غیب اور عالم شھود کے درمیان رابطہ



”تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ھیں“

آپ ھی کا ارشاد گرامی ھے:

<فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا اٴدّینافرائض ربناعزّوجلّ>[8]

”اگر روٹی (کی بات) نہ ھوتی تو نہ ھم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ھی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے“

حرکت تاریخ کے سلسلہ میں غیبی عامل کا کردار

عالم غیب اور عالم محسوس میں اسی رابطہ کی بنا پر قرآن کریم ”غیب“کو حرکت تاریخ کا اھم سبب شمار کرتا ھے اور تاریخ کے پیچھے مادی سبب کو بھی تسلیم نھیں کرتا چہ جائیکہ مادیت کو تاریخ کا تنھا محرک مانا جائے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ھے کہ تاریخ مادی عوامل کے تقاضوں کے برخلاف حرکت کرتی ھوئی نظر آتی ھے۔

ذرا قرآن کریم کی ان آیات میں غور وخوض کیجئے:

<لقدنصرکم الله فی مواطن کثیرة ویوم حنینٍ اذ اٴعجبتکم کثرتکم فلم تغنِ عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولّیتم مدبرین#ثم اٴنزل الله سکینتہ علیٰ الموٴمنین واٴنزل جنوداً لم تروھا وعذّب الذین کفروا وذٰلک جزاء الکافرین>[9]

”بیشک اللہ نے اکثر مقامات پر تمھاری مدد کی ھے اور حنین کے دن بھی جب تمھیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس(کثرت) نے تمھیں کوئی فائدہ نھیں پھونچایا اور تمھارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ھوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ،پھر اسکے بعد اللہ نے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنھیں تم نے نھیں دیکھااور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیاکہ یھی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ھے“

ان آیات کریمہ سے پھلا نتیجہ یہ برآمد ھوتا ھے کہ فتح و کامرانی عطا کرنے والا خدا ھے۔

مادی اسباب و وسائل صرف ذریعہ ھیں کامیابی دینے والا اصل میں خدا ھے۔ تاریخ کی حرکت کو سمجھنے کے لئے بنیادی نقطہ یھی ھے اور یھیں سے اسلامی نظریہ،مادیت کے نظریہ سے جدا ھوجاتا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next