عالم غیب اور عالم شھود کے درمیان رابطہ



میدان جنگ میں یہ برتری خدا پر ایمان سے پیدا ھوتی ھے۔ایمان کے بعد پھر کھیں ان مادی اسباب و عوامل کی باری آتی ھے جنکی ضرورت میدان جنگ میں پڑتی ھے۔

سورئہ اعراف میں بھی یھی مضمون نظر آتا ھے:

<ولواٴنّ اٴھل القریٰ آمنوا وا تّقوا لفتحنا علیھم  برکاتٍ من السماء والارض ولکن کذّبوا فاٴخذناھم بماکانوا یکسبون>[12]

”اور اگر اھل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ھم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ھم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔“

”پروردگار عالم اپنے بندوں پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیتا ھے“ یہ چیز ایمان وتقوے سے ھی حاصل ھوتی ھے۔اسکے ساتھ ضمنی طورپرمادی و سائل بھی درکار ھوتے ھیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ تھا جو کہ مثبت رخ تھا کہ کس طرح میدان جنگ میں ایمان اور تقوی ٰسے فتح و کامرانی ملتی ھے معاشی زندگی میں وسعت رزق ،آسانیاں اور خوشیاں میسر ھوتی ھیں۔ اسکے برخلاف عالم غیب اور عالم محسوس کا یھی تعلق اور رابطہ غلطیوں اورگناھوںمیں مبتلاھونے اور حدود الٰھی سے تجاوز ،تہذیبوں کے خاتمہ اور امتوں کی تباھی و بربادی کا سبب بھی ھوتا ھے۔

سورئہ انعام کی ان آیات کو غور سے پڑھئے:

<اٴلم یرواکم اٴھلکنامن قبلھم من قَرنٍ مکنّاھم فی الارض مالم نمکّن لکم واٴرسلنا السماء علیھم مدراراً وجعلنا الانھارتجری من تحتھم فاٴھلکناھم بذنوبھم واٴنشاٴنا من بعدھم قرناً آخرین>[13]

”کیا انھوں نے نھیں دیکھا کہ ھم نے ان سے پھلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ھے جنھیں تم سے زیادہ زمین میں اقتدار دیا تھا اور ان پر موسلادھار پانی بھی برسایا تھا ان کے قدموں میں نھر یں بھی جاری تھیں پھر ان کے گناھوں کی بناپر انھیں ھلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری نسل جاری کردی “

یہ ھلاکت و بربادی بے عملی، عصیان اور گناھوں کی وجہ سے تھی مادیت کو تاریخ کا محرک سمجھنے والوں کی نگاہ میں ان اسباب کی کوئی حیثیت ھی نھیں ھے جبکہ قرآن بد اعمالیوں کو بھی بربادی کا سبب مانتا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next