اسلام میں انفاق کی اہمیت



در حقیقت انسانوں سے رابطہ پروردگار عالم سے رابطہ کا نتیجہ ہے، جس کاخدا سے رابطہ برقرار ہو جائے اور جملہ ”مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ“ کے مطابق تمام روزی اور نعمت کو خدا کی عطا جانے (نہ کی اپنی طرف سے)اور پروردگار کی اس عطا کواپنے پاس رکھی ہوئی چند روزہ امانت جانے، ایسا شخص راہِ خدا میں انفاق اور بخشش کرنے سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتا بلکہ خوشحال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اس نے مالِ خدا کو اس کے بندوں کے اوپر خرچ کیا ہے اور نتیجہ میں اس انفاق کی مادی اور معنوی برکات اور اثرات کواپنے لئے خریدا ہے ۔

یہ طرز فکرانسان کو بخل،کنجوسی اور حسد سے دور کرتا ہے اور عالم تنازع کو دنیائے تعاون میں بدل دیتا ہے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر شخص اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے کہ جو نعمتیں اس کے اختیار میں ہیں انہیں ضرورت مندوں کے سپرد کر دے اور کسی کی جزا اور عوض کی امیدکے بغیر سورج کی طرح نور افشانی کرے ۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جملہ ”مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ“کی تفسیر میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایاہے ”اِنَّ مَعْنَاہُ وَمِمَّا عَلَّمْنَاہُمْ یَبَثُّوْنَ“یعنی جو علوم ہم نے انہیں سکھائے ہیں وہ ان کو نشر کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کو تعلیم دیتے ہیں ۔

واضح سی بات ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انفاق صرف علم سے مخصوص ہے بلکہ چونکہ اکثر افراد مسئلہ انفاق میں مالی اورمادی انفاق کی طرف متوجہ ہو تے ہیں لہٰذا امام - نے اس معنوی انفاق کوذکرکرکے انفاق کی وسعت اور عمومیت کو بیان کرنا چاہاہے ۔

اس کے نتیجہ میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ آیت میں انفاق صرف زکوٰة واجب یا زکوٰة واجب ومستحب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انفاق کا ایک وسیع اور عام معنی ہے جو ہر قسم کی بلا عوض مدد اور تعاون کو شامل کئے ہوئے ہے ۔

۳. انفاق،عفو و در گذشت اور غصہ کو پی جانا

سعادت کے تین اہم اسباب -

سورئہ آلِ عمران آیت نمبر۱۳۴میں اس طرح ذکر ہوا ہے :

<اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَا فِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن>َ

(صاحبانِ تقویٰ وہ لوگ ہیں )جو دکھ اور سکھ ہر حال میں انفاق کرتے اور غصہ کوپی جاتے ہیںاور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیںاور خدااحسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next