اسلام میں انفاق کی اہمیت



یہ پروردگار کی عطا کردہ نعمتیںجو انسان کے اختیار میں ہیں ان میں ایثار، فداکاری اور انفاق کی دعوت ہے اور پروردگار نے اس دعوت کو ایک اہم نکتہ سے جوڑ دیا ہے جس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔وہ یہ کہ اصل میں مالک حقیقی خداوندعالم ہے اور یہ مال ودولت امانت کے طور پر کچھ دنوں کے لئے تمہارے حوالے کئے گئے ہیںویسے ہی جیسے تم سے پہلے دوسروں کے اختیار میں تھے اور آئندہ بھی دوسروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے ۔

بے شک ایسا ہی ہے اسلئے کہ قرآن کریم کی دیگر آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ساری کائنات کا حقیقی مالک پروردگار عالم ہے ۔ اس حقیقت اور واقعیت پر ایمان رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اس کے ”امانتدار“ہیں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ امانتدار ،صاحب امانت کے فرمان کو نظر انداز کر دے !

اس اہم نکتہ کی طرف توجہ، انسان کے اندر جذبہٴ سخاوت اور ایثار پیداکرتا ہے اور اس کے دل اور ہاتھ کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کھو ل دیتا ہے ۔

”مستخلفین“ (نائب اور جانشین ) کی تعبیر ممکن ہے انسان کے زمین اور نعمات زمین میں خدا کے نمائندہ اور جانشین ہونے کی طرف اشارہ ہو یاگذشتہ امتوں کی جانشینی کی طرف اشارہ ہو یا دونوں کی طرف اشارہ ہو۔

”تعبیر“ ”مما“(ان چیزوں میںسے)ایک عام تعبیر ہے جو صرف مال ہی نہیں بلکہ ہر سرمایہ اور نعمت الٰہی کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ انفاق کا ایک وسیع اور عام معنی ہے جو صرف مال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علم،ہدایت،سماجی اثرو رسوخ اور دوسرے مادی اور معنوی سرمایہ کو بھی شامل ہوتا ہے ۔

اس بیان کے بعد مزید تشویق کے لئے ارشاد فرماتا ہے: تم میںسے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔فَالَّذِیْنَ آمَنُوْامِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ

کلمہ کبیرکے ذریعہ اجرکی صفت لانا ،الطاف اور نعمات الٰہی کی عظمت اور اس کی ہمیشگی کو بیان کرنا ہے ۔یہ اجر عظیم صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی انسان کو نصیب ہوگا ۔

راہ خدا میں انفاق کے حکم کے بعد اس کی ایک دلیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :اور راہ خدا میں انفاق کیوں نہ کرو جبکہ زمین وآسمان کی ساری میراث اسی کی ہے ! ”وَ مَا لَکُمْ اٴَلاَّتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلَّہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ“

یعنی آخر کار تم سب اس کائنات اور اس کی ساری نعمتوں سے آنکھ بند کرکے ،سب کچھ چھو ڑ کر چلے جاؤ گے لہٰذا فی الحال جبکہ یہ ساری چیز یں تمہارے اختیار میں ہیں ان سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟

راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ ”میراث “اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر کسی قرار داد اور معاہدہ کے کسی کو حاصل ہو اور مرنے والے کی جانب سے جو چیز اس کے رشتہ داروں کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ اسی کا ایک مصداق ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے یہی معنی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next