علم غیب، قرآن کی روشنی میں



لیکن ایک آیت ایسی ھے جو کہتی ھے کہ علم غیب خدا سے مخصوص نھیں ھے، یعنی ان آیات کے لئے مخصّص ھے جن میں غیب کو خدا میں منحصر کیا گیا ھے، چنانچہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

< عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ اٴَحَدًا، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ>[4]

” وہ عالم الغیب ھے اور اپنے کسی غیب پر کسی کو مطلع نھیں کرتا ھے۔ مگر جس رسول کو پسند کر لے۔“

قارئین کرام! اس آیہ شریفہ اور گزشتہ چند آیات کو ایک ساتھ رکھ کر یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ ھر قسم کا علم غیب خداوندعالم سے مخصوص ھے؛ لیکن خداوندعالم جس کو چاھے اس کو عطا کرسکتا ھے، اور چونکہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد خلافت اور جانشینی کے مسئلہ میں اختلاف ھوا، قرآنی آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مستقبل میں ھونے والے واقعات سے باخبر تھے، لہٰذا اپنی وفات کے بعد خلافت و جانشینی کے مسئلہ میں ھونے والے حوادث اور فتنوں سے آگاہ تھے۔

علم غیب، روایات کی روشنی میں

روایات کے مطالعہ کے بعد ھم پر یہ واضح ھوجاتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)خلافت اور جانشینی کے مسئلہ میں ھونے والے فتنہ اور اختلاف سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ آئیے ان روایات میں سے چند روایتوں کی طرف اشارہ کریں:

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

۱۔ ”لتفترقنّ اٴمّتی علی ثلاث و سبعین فرقة، واحدة فی الجنة و ثنتان و سبعون فی النار“ [5]

”میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ھوجائے گی، جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور ۷۲ فرقے آتش جھنم میں جلیں گے۔“

اس حدیث کو بہت سے اصحاب رسول نے نقل کیا ھے، جیسے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، انس بن مالک، سعد بن ابی وقاص، صُدی بن عجلان، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمر و بن عاص، عمر بن عوف مزنی، عوف بن مالک اشجعی، عویمر بن مالک اور معاویہ بن ابی سفیان۔

اھل سنت کے بہت سے علماء نے اس حدیث کو صحیح مانا ھے اور اس کے بارے میں کھا ھے کہ یہ حدیث متواتر [6] ھے؛ جیسے مناوی نے فیض القدیر،(???۱) میں، حاکم نیشاپوری نے المستدرک علی الصحیحین،[7] میں،ذھبی نے تلخیص المستدرک[8] میں، شاطبی نے الاعتصام،[9] میں، سفارینی نے لوامع الانوار البھیة،[10] میں، اور ناصر الدین البانی نے سلسلةالاحادیث الصحیحة میں[11]



back 1 2 3 4 5 6 7 next