دینی نظام میں قوانین کامقام



لھٰذا جو شخص اسلام کا معتقد ھے اس کو ایک سرے سے اس کے تمام قوانین اور احکام کو مانناچاھیئے ،اور یہ عقیدہ رکھنا چاھئے کہ اسلام کے تمام ضروری احکام علمی تبدیلیوں کے تابع نھیںھیں کہ جو علمی نظریات یا نئی علمی تھیوریوں کی وجہ سے ان میںتبدیلی رونما ھوجائے ایسی شکل میں جو نمازسے مربوط آیت کو حق سمجھتا ھے اور چوری سے متعلق آیت کو حق جانتا ھے اگر چہ اسے قرآن میں متشابہ اور محمل آیات ملتی ھیں، جن کو وہ اسلام کے متغیرقانون کی حیثیت سے پاتاھے ،لیکن یہ یقین رکھتاھے کہ قرآن اور اسلام میں ایسے مستحکم اور یقینی اصول موجود ھیں جو دوسرے تمام متغیراصول سے الگ پھچانے جاتے ھیں.

 

6.اسلام مختلف تعبیربیں رکھتا ھے.

 

(ایک اعتراض اور اس کا جواب)

یہ بات تواضح ھے کہ کچھ آیات سے مختلف طرح کے مطالب سمجھے جاتے ھیں اور مختلف طرح کی تفسیریں بیان کی جاتی ھیں اور اسلام کے کچھ احکام میں اختلاف نظرپایا جاتاھے جواس بات کا باعث نھیں بنتاکہ اسلام کے سارے قوانین مشتبہ اور اختلافی ھیں،اسلام میں ایسے ھزاروں قطعی احکام موجود ھیں جن کے بارے میں تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق نظرپایا جاتاھے لیکن فرعی اور بھت مختصر احکام میں شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان اختلاف پائے جاتے ھیں، اور فقہ کے ایک عظیم حصہ میں فریقین کے یھاں اختلاف نظر نھیں پایاجاتاھے اسی طرح سے شیعہ فرقے کے کچھ احکام میں فقھا کے درمیان فتوؤں میں اختلاف کا ھو نا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ تمام احکام میں اختلاف پایاجاتاھے،جس طرح ایک مخصوص بیمار کے بارے میں دو ڈاکٹر وںکی تجویز کا الگ الگ ھونا اور دونوں کے نسخوں کا فائدہ بھی ھونا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ علمِ ڈاکٹر ی میں پائیدار اور استوار قوانین نھیں پائے جاتے ھیں.

اسی بناپر اسلام میں ایک طرح کے قطعی اور یقینی احکام موجود ھیں جس میں کسی طرح کا شک وشبہ نھیںپایاجاتاھے ،اور بعض مقامات پر اختلاف نظر کا ھو ناھمیں اس بات کا سبق نھیں دیتا کہ ھم مسلّم احکام نھیں رکھتے اور اس بھانہ سے ھم اسلام سے الگ ھو جائیں ،اس کے باوجود آج جب اسلام کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے تو قلبی مریض اور قرآن کے ارشادکے مطابق: ( اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ.)(8)

”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ھے“

کھتے ھیںکہ کونسا اسلام ؟وہ اسلام جس کو شیعہ بتاتے ھیں یا وہ اسلام جس کو سنی بتاتے ھیں ؟یا وہ جس کو فقھاء بتاتے ھیں یا وہ جس کو دانشورحضرات بتاتے ھیں ؟اس کے باوجود کہ ھم اعتقادات ،اخلاقیات ، فردی احکام ،سماجی ا حکام،تجارت کے قوانین اور بین الاقوامی قوانین میں ایک طرح سے ثابت حقوق اور ھزاروں متفق علیہ قوانین رکھتے ھیں ، تو پھر کیوں وہ لوگ بجائے اس کے کہ یقینی اور مسلم قوانین کو اپنائیں اختلافات اور افتراقات کو اپنائے ھوئے ھیں ؟اور جب ان سے یہ کھا جاتاھے ھماری یونیورسٹیوں کو اسلامی ھو نا چا ھئے توکیوں روحی بیمار اور کج فکر لوگ پوچھتے ھیںکہ کون اسلام ؟اس کا جواب یہ ھے کہ وھی اسلام جو یہ کھتاھے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نھیں کرنا چاھیئے ،عدالت کو قائم کر نا چاھیئے کیا ان چیزوں میں اختلاف پایا جاتاھے؟

اگر آپ انھیں یقینی اور متفق علیہ قوانین کو جن کے بارے میں فریقین میں اختلاف نھیں ھے یونیورسٹیوں میں اپنائیں تو آپ نھایت خوش ھونگے،یہ فطری بات ھے کہ جب وہ لوگ نھیں چاھتے کہ اسلام کے مطابق عمل کریں تو بھانہ تلاش کرتے ھیں کہ کس نے کھا ھے کہ فقھاء کا اسلام نافذکیا جائے اور روشن فکروں کا اسلام نافذ نہ کیا جائے ؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next