مذاہب کی مشترکہ بنیادیں قرآنی نظریہ



اے اہل کتاب! آئو اس ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی اختیار نہ کریں اور نہ کسی چیز کو اُس کا شریک قرار دیں اورنہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو رب قرار دے ۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ ہم تو (اس نظریے کو) تسلیم کرنے والے ہیں ۔

قرآن میں کلمة سوائ کے معنی و مفاہیم کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اہم ترین تین عناصر جنہیں کلمة سواء یعنی مشترک بنیادیں قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا،کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہ دینا،اللہ کوچھوڑ کر کوئی ایک دوسرے کا رب نہ بنانا ہے ۔ تاہم بغور مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی بات کو مختلف انداز میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کا یہ یقینی مطلب ہے کہ کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیا جائے ۔ یہی اُس کی خالص عبادت کا راستہ ہے ۔ اسی طرح توحید پرستی اورشرک کی نفی کا انسانی معاشرے میں عملی نتیجہ یہ ہے کہ سب قومیں اورسب انسان مساوی ہیں، کیونکہ سب مساوی طور پر اللہ کے بندے ہیں ۔ کوئی کسی انسان یا کسی قوم کا بندہ نہیں یعنی کسی فرد کو اور کسی قوم کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ''رب'' کے مقام پر فرض کرے ۔ قوموں اورافراد کے ''ارباب'' ہونے کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ سب قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مساویانہ اورانسانی برتائو کریں ۔

 

اہل کتاب کے ساتھ مشترکہ بنیادوں پر مل جل کر رہنے کے بارے میںقرآن حکیم کی دعوت بہت واضح ہے ۔

 

قرآن کہتا ہے:

 

قُلْ یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہشَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(١)

 

کہیے: اے اہل کتاب! آئو اس ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی اختیار نہ کریں اور نہ کسی چیز کو اُس کا شریک قرار دیں اورنہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو رب قرار دے ۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ ہم تو (اس نظریے کو) تسلیم کرنے والے ہیں ۔



1 2 3 4 5 6 next