مذاہب کی مشترکہ بنیادیں قرآنی نظریہ



 

اس آیت میں چند امور غور طلب ہیں ۔ ان میں سے ایک ''اہل کتاب'' کی اصطلاح ہے ۔ جس سرزمین پر قرآن حکیم نازل ہوا اُس پر زمانۂ نزول میںیہودیوں اورمسیحیوں کو اہل کتاب کہا جاتا تھا۔ کوئی اور گروہ اس زمانے میں جزیرة العرب میں ''اہل کتاب'' کی اصطلاح کا مصداق قرار نہیں دیا جاتا تھا۔ جب مسلمان جزیرة العرب سے باہر نکلے اور انھیں دیگر اقوام کا بھی سامنا کرنا پڑا تو پھر یہ اصطلاح بعض دیگر اقوام کے لیے بھی درست قرار دی گئی ۔ مثلاً اسلامی روایات کے مطابق زرتشت بھی نبی تھے اوراُن سے منسوب کتاب ''اوستا'' بھی ایک برحق آسمانی کتاب ہے لہٰذا عام طور پر زرتشتیوں کو بھی ''اہل کتاب'' تسلیم کیا گیا اوراسلام کی دعوتِ اشتراک و اتحاد اور اہل کتاب کے لیے بعض خصوصی مراعات کا انھیں بھی مصداق و حقدار سمجھا گیا۔ جب مسلمان ہندوستان پہنچے تو یہاں ایک اور بڑی قوم سے اُن کا سامنا ہوا۔ یہ ہندو تھے ۔ بظاہر تو یہ بت پرست تھے لیکن جب ہندو مذہب کی بنیادی کتابوں کے ترجمے ہوئے اورمسلمان علماء نے گہری نظر سے اُن کا مطالعہ کیا تو بہت سے علماء نے اس امکان کا اظہار کیا کہ ہندو مذہب کے بانی بھی الٰہی تعلیمات کے حامل تھے ۔ جیسے انسانی دست برد نے دیگر مذاہب کو متاثر کیا اسی طرح ہندو مذہب بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس پس منظر میں کئی ایک علماء نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ہندوئوں کو بھی اہل کتاب میں سے شمار کیا جائے ۔ مثال کے طور پر عصر حاضر کے ممتاز سنی عالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور شیعہ عالم سید قمرالزمان سبزواری کا نام لیا جاسکتا ہے ۔بدھ مت کے بانی کے بارے میں بھی بعض مسلمان علماء نے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ انھیں موحد اوراُن کی تعلیمات کو انسان دوستی پرمبنی قرار دیا اور یہ دونوں باتیں آسمانی ادیان کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں ۔

 

مذکورہ بالا آیت میں جس بات کو''کلمة سوائ'' یعنی مشترک بات قرار دیا گیا ہے اُس کے تین عناصر ہیں:

 

(١) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ۔

 

(٢) کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہ دیں ۔

 

(٣) اللہ کوچھوڑ کر کوئی ایک دوسرے کا رب نہ بنے ۔



back 1 2 3 4 5 6 next