رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات



اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے ۔ جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہیں ۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برائی کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور نیکی سے جواب دیتا ہے قرآن کریم کے مطابق۔ ادفع بالتی ہی احسن السئیۃ ( مومنون 96) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعے رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں ۔

بقول شاعر۔

بدی رابدی سھل باشد جزا

اگر مردی احسن الی من اساء

 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العفو تاج المکارم۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق میں سب سے اعلی ہے ۔ (عزرالحکم ج 1 ص 140)

یہ آیات کریمہ ہماری بیان کر دہ باتوں کا ثبوت ہیں اور ان میں اخلاق کریمانہ کی پاداش بھی بیان کی گئی ہے "والذین اذا اصابھم البغی ہم ینتصرون۔ وجزاء السیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین۔ ولمن انتصر بعد طلبہ فاولئک ماعلیھم من بیل۔ ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوری 39-43)

"اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے لیتے ہیں اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقیناً ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے ۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے ۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلاتے ہیں انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے ۔

اس آیت سے چند امور واضح ہوتے ہیں ۔

1۔ ستم رسیدہ کو انتقام لینے کا حق ہے کیونکہ بدی کا بدلہ عام طور سے بدی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next