رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات



ہم بقدرتشنگی باید چشید

 

   

رحمۃ للعالمین

ہجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمین کے لئے افتخارات اور کامیابیوں کا سال تھا اسی سال مسلمانوں نے مشرکین کے سب سے بڑے اڈے یعنی مکہ مکرمہ کو فتح کیا تھا۔

اس کے بعد اسلام سارے جزیرۃ العرب میں بڑی تیزی سے پھیل گیا۔

فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور اونٹ پر بیٹھ کرمسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے ۔ شہر مکہ جہاں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ندائے حق اور دعوت الہی کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام لیا گیا تھا آج اس پر عجیب خاموشی اور خوف چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شارفوں اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے عبدالمطلب کے پوتے کی عظمت و جلالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسمانی رہبر کی قیادت میں طواف کرنے کو بے چین تھا لوگوں نے آپ کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ کے اونٹ کی حمار محمد بن مسلمہ کے ہاتھ میں تھی ۔ آپ نے اس عالم میں طواف کیا حجراسود کو بوسہ دینے کے بعد خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نیچے گرایا اور حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ کے شانہ ہائے مبارک پر کھڑے ہو کر بتوں کو نیچے پھینکیں ۔ سیرہ حلبیہ اور فریقین کی بہت سی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت کے شانے پر کھڑے ہوئے تھے تو کیسامحسوس کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں ستارہ ثریا کو چھوسکتا ہوں ۔ اس کے بعد آپ ص نے کلید دار کعبہ عثمان طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا کعبے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے پیغمبروں اور فرشتوں کی جو تصویریں بنا کر دیواروں سے آویزاں کر رکھی تھیں انہیں اپنی عصا سے نیچے گرایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔

قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا "اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے ۔ (اسراء 81)

مشرکین مکہ صنادید قریش اور ان کے خطباء و شعرا جیسے ابوسفیان ، سہبل بن عمرو اور دیگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سرجھکاے کھڑے تھے ۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ نے مکہ فتح کر لیا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کی اذیتوں ،تہمتوں اور تمسخروافتراءت کا بدلہ لیں گے ؟ اور ان کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے !

جن لوگوں نے ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی و پیغمبر الہی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور آپ کی بزرگواری اور کریمانہ اخلاق سے آگاہ نہیں تھے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے ، دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ اقتدار و فتح و کامرانی کی صورت میں ان پر غرور و ہوا و ہوس کا سایہ تک نہیں پڑسکتا۔ اہل مکہ کے لئے اس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پر اضطراب تھا ایسے میں آپ نے وہی جملے دوہرائے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے ، آپ نے کہا لا الہ الا ا للہ وحدہ لاشریکلہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی نصرت کی اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next