رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات



بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے صبر اسکی فوج کا امیر ہے دوستی اس کا بھائی ہے نرمی اس کا باپ ہے ۔ (مجلسی ج 78 ص 244)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم خوئی اور رواداری خدا کی خاص عنایت و لطف میں ہے اسی صفت کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے ۔ سورہ مبارکہ آل عمران میں آپ کی ان ہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے "فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غلیظا القلب لانفضوامن حولک فا‏عف عنھم واستغفرلھم۔ پیغمبر اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کر دو اور ان کے لئے استعفار کرو۔(آل عمران 150)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم مزاجی اور رواداری کے بارے میں دو واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔

محدث قمی نے سفینہ البحار میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ایک عرب آتا ہے اور آپ کی عبا کو پکڑ کر زور سے کھینچتا ہے جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑ جاتے ہیں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرد عرب کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمایا المال مال اللہ وانا عبدہ۔ سارا مال خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تو نے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم ان میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں ۔ آنحضرت یہ سنکر ہنس پڑے اور فرمایا مرد عرب کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما لاد دیا جائے ۔ اسکے بعد اسے روانہ کر دیا۔ (سفینہ البحار باب خلق)

1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں ساتویں امام علیہ السلام کے واسطے سے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک مرد یہودی کی چند اشرفیاں قرض تھیں ، یہودی نے آنحضرت سے قرضہ طلب کر لیا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہودی نے کہا میں اپنا پیسہ لیئے بغیر آپ کو جانے نہیں دونگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگرایسا ہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہوں گا، آپ اس مرد یہودی کے پاس بیٹھ گئے اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں ۔ جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو یہودی کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے ۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمایا اصحاب نے کہا اس یہودی نے آپ کو قیدی بنا لیا ہے اس کے جواب میں آپ نے فرمایا لم پبعثنی ربی بان اظلم معاھدا ولاغیرہ۔ خدا نے مجھے نبی بنا کر نہیں بھیجا تاکہ میں ہم پیمان کافر یا کسی اور پر ظلم کروں ۔ دوسرے دن مرد یہودی اسلام لے آیا اس نے شہادتین جاری کیں اور کہا کہ میں نے اپنا نصف مال راہ خدا میں دیدیا خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ میں نے توریت میں آپ کی صفات اور تعریف پڑھی ہے توریت میں آپ کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطیبہ ولیس بفظ ولاغلیظ و بسخاب و لا متزین بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لا الہ الا ا للہ وانک رسول اللہ وھذا مالی فاحکم فیہ بما ا نزل اللہ۔ محمد ابن عبداللہ جس کی جائے پیدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کر کے مدینے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسی سے چیخ کر بات نہیں کرتے اور نہ ان کی زبان فحش اور بیہودہ گوئی سے آلودہ ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اس کے رسول ہیں اور یہ میرا مال ہے جو میں نے آپ کے اختیار میں دیدیا اب آپ اس کے بارے میں خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ۔

سورہ توبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تولوا فقل حسبی اللہ لا الہ الا ا للہ ہو علیہ توکلت و ہورب العرش العظیم۔

یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ، وہ تمایری ہدایت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ پھیر لیں تو کہ دیجئے کہ میرے لئے خدا کافی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میرا اعتقاد اسی پر ہے اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے ۔

نوع دوستی اور بے کسوں کی دستگیری

1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا دیکھتا ہے کہ آپ کا لباس پرانا ہو چکا ہے آپ کو بارہ درہم دیتا ہے کہ آپ اپنے لئے نیا لباس خریدیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بارہ درہم حضرت علی علیہ السلام کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کے لئے لباس خرید کر لائیں ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے بارہ درہم کا ایک لباس خریدا اور رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے لباس دیکھ کر فرمایا ہے علی دوسرا لباس میری نظر میں بہتر ہے ، دیکھو کیا دوکاندار یہ لباس واپس لے گا۔ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا جا کر معلوم کرو، میں دوکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ رسول خدا کو یہ لباس پسند نہیں آیا ہے انہیں دوسرا لباس چاہئے اسے واپس لے لو۔ دوکاندار نے لباس واپس لے لیا اور حضرت عیں علیہ السلام کو بارہ درہم لوٹا دئے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں میں وہ بارہ درہم لیکر رسول اللہ کی خدمت میں گیا آپ میرے ساتھ لباس خریدنے کے لئے بازار کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کنیز بیٹھی رو رہی ہے ۔ آنحضرت نے اس کنیز سے پوچھا کہ اس نے رونے کا کیا سبب ہے ، اس نے کہا یارسول اللہ میرے گھر والوں نے سودا خریدنے کے لئے چار درہم دیتے تھے ۔ لیکن درہم گم ہو گئے اب مجھے خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کنیز کو چار درہم دے دیئے اور فرمایا جاؤ اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر آپ بازار کی طرف روانہ ہو گئے اور چار درہم کا لباس خریدا خدا کا شکر ادا کیا اور بازار سے روانہ ہو گئے ۔ آپ نے دیکھا کہ ایک برہنہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو مجھے کپڑے پہنائے خدا اسے جنت میں کپڑے پہنائے گا۔ رسول اللہ نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنا دی ۔ آپ دوبارہ بازار تشریف لے گئے اور باقی بچے چار درہموں سے ایک اور لباس خریدا اور بیت الشرف تشریف لے گئے ۔ راستے میں دیکھتے ہیں وہی کنیز بیٹھی رو رہی آپ نے اس سے پوچھا تم اپنے گھرکیوں نہیں گئیں ۔ کنیز نے کہا اے رسول خدا میں بہت دیرسے گھر سے باہر ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں گھر والے میرے پٹائی نہ کر دیں آپ نے فرمایا اٹھو ،میرے آگے آگے چلو اور اپنے گھر والوں کو مجھ سے ملواؤ، رسول خدا اس کنیز کے ساتھ اس کے گھر پہنچے آپ نے دروازے پر پہنچ کر فرمایا السلام علیکم یا اہل الدار کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا آپ نے دوبارہ سلام کیا کسی نے جواب نہیں دیا جب آپ نے تیسری مرتبہ سلام کیا تو گھر سے آواز آئی و علیک السلام یارسول اللہ و رحمۃ اللہ برکاتہ آپ نے فرمایا پہلی اور دوسری مرتبہ میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا گیا تو گھر والوں نے کہا کہ ہم نے دونوں مرتبہ آپ کی آواز مبارک سنی تھی اور آپ کی آواز بار بار سننا چاہتے تھے ۔ رسول اللہ نے فرمایا یہ کنیز دیرسے گھر لوٹ رہی ہے اس کی تنبیہ نہ کرنا گھر والوں نے کہا اے رسول خدا آپ کے قدم مبارک کے صدقے اس کنیز کو آزاد کیا آپ نے فرمایا الحمد اللہ ان بارہ درہموں سے بابرکت درہم نہیں دیکھے ان کی برکت سے دو برہنہ جسموں کولباس ملا ا ور ایک کنیز کو آزاد نصیب ہوئی ۔

حمیری نے اپنی کتاب قرب الاسناد میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا آپ نے فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے تو قبیلہ بنی الحبلی کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس ہے آپ نے فرمایا اس سائل کو چاروسق خرما دے دو اس شخص نے سائل کو چار وسق خرما دے دیا اس کے بعد رسول اللہ سے اپنا ادھار واپس لینے کے لئے آپ کے پاس گیا آپ نے فرمایا انشاء اللہ تمہیں تمہاری امانت مل جائے گی، وہ شخص چار مرتبہ رسول خدا کے پاس گیا آپ نے اسے یہی جواب دیا اس نے کہا یارسول اللہ آپ کب تک یہ فرماتے رہیں گے انشاء اللہ تمہارا ادھار ادا کر دیا جائے گا! آنحضرت مسکرائے اور فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے ، ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا میرے پاس ہے یارسول اللہ، آپ نے فرمایا تیرے پاس کتنا مال ہے ، اس شخص نے کہا آپ جتنا چاہیں ، آپ نے فرمایا اس شخص کو اٹھ وسق خرما دے دو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next