ادیان الٰہی میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسین



اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر

معنی ذ بح عظیم آ مد پسر

 

اللہ اللہ وہ کلمۂ تحسین و آفرین ہے جو مرحبا ،حبذا اور شاباش کے معنوں میں آتاہے اس کا لطف اہل زبان خوب جانتے ہیں اور یہ لفظ (اللہ اللہ ) اس وقت اور بھی حسن و رعنائی میں بڑھ جاتا ہے جب شاعر اپنے کسی شعر کا آغاز لفظ اللہ اللہ سے کرتا ہے جیسا کہ علاّمہ صاحب نے اس شعر کے ابتداء میںاستعمال کیا ہے ۔

جناب ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی بن علی طالب علیہ السلام ایک شب بسم اللہ کی تفسیر بیان کر رہے تھے ۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش باب مدینتہ العلم کے فضل و کمال سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ رات بیت گئی مگر تفسیر نا تمام رہی ۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اس کی تفسیر کلی طور پر بیان کریں تو اسکا بوجھ ستر (٧٠) اونٹ نہیں اٹھاسکتے اسی واقعے کو شیخ سلیمان قندوزی نقشبندی نے اپنی (ینابیع المؤدہ ) شہرہ آفاق کتاب میں '' امیر المٔومنین فرماتے ہیں کہ جو کچھ کلام اللہ ہے وہ سورۂ الحمد (الفاتحہ) میں ہے۔اور جو کچھ سورۂ الحمد (فاتحہ ) میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ ''ب'' کے نقطے میں ہے اور وہ '' با'' کے نیچے کا وہ نقطہ میں( علی ) ہوں''۔

اللہ اللہ جہاں مصرعۂ اولیٰ میں علاّمہ اقبال صاحب نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ارشاد کو نظم کیا ہے وہیں اس شعر کے مصرعۂ ثانی میں کلام اللہ کی اس آیت کی تشریح و توضیح نہایت اجمالی کے ساتھ بہت ہی خوبصورت سے نظم کی ہے ۔ جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب تین بار جبرئیل امین نے آکر چھری کو حلق اسماعیل سے پلٹ دیا تو آواز قدرت آئی ، اے ابراہیم تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ۔اب ہم تم دونوں (باب بیٹے ) کو اعلیٰ مراتب سے سرفراز فرمائیں گے ۔ اس لیئے کہ ہم نیکی کرنے والوں کو جزاے خیر دیتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بڑا کڑا امتحان تھا اور حضرت اسماعیل کی قربانی کا فدیہ ایک ذبح عظیم سے بدل ڈالا۔افسو س کہ کم عقل اور کم نظر مفسرین نے اس واضح خداوندی وفدیناہ بذحٍ عظیم سے مراد وہ موٹا تا زہ دنبہ لیا ہے جو بہشت سے جناب اسماعیل کی جگہ آیا ہے مگر صاحب یہ انسان سے افضل نہیں چہ جائیکہ نبی امام سے بڑھ جائے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا کہ قربانی اسماعیل کی جگہ آیا تو اسماعیل سے اس بہشتی دنبے کی قربانی عظیم ہو جو جناب اسماعیل کی جگہ آیا تو ماننا پڑے گا کہ ذبح عظیم کے مصداق اتم حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی ذات ستودۂ صفات ہے جو

 

بحر حق در خاک و خون غلطیدہ است

پس بنائے لا ا لہٰ گر دیدہ است (اسرار ،رموز خودی ص ١٢٧)

حسین علیہ السلام حق کی خاطر اپنے عزیزوں اور مٹھی بھر جانثاروں کے ساتھ باطل سے ٹکرا گیا ۔تاریخ گواہ ہے کہ یزید اپنی پوری طاقت کے ساتھ شراب و کباب اور شباب کے نشے میں چور حق سے بر سر پیکار ہوا ۔اس نے اسلام کے خدوخال کو مسخ کرنے کی سعی لا حاصل کی ۔ اس نے اقدار اسلامیہ کو پائمال کرنے کی بھی جسارت کی ،اس نے شریعت محمدیہ کا کھلے بندوں مزاق بھی اڑایا۔ ہمارے اس بیان پر واقعہ حرّہ بطور دلیل تاریخ میں آج بھی موجود ہے ۔ اور پھر اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ توحید و رسالت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہوا طاقت کو حق کہتا ہے ۔ اس کے برعکس جگر گوشئہ رسولۖ حفاظت حق کے لیئے صدائے حق بلند کرتاہے ۔ اور یزید کے اس نعرہ کو باطل قرار دیتا ہے کہ طاقت حق ہے نہیں نہیں ہر گزطاقت حق نہیں بلکہ حق طاقت ہے ۔ یہ منوانے کے لئے حسین کفن بر دوش سر فروش ساتھیوں کے اٹھے اور باطل سے ٹکرا گئے۔تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ فتح و نصرت نے حسین کے قدم چومے اور شکست دائمی یزید نحس کا مقدّر بن گئی ۔ اللہ اللہ حسین علیہ السلام نے خاک و خون کا دریا پاٹ کرصفحۂ گیتی پرحرف الا اللہ کی وہ مستحکم بنیاد رکھ دی کہ جسے اب تابہ ابد کفر والحا د و زندقہ کی منہ زور آندھی نہ ہلا سکتی ہے اور نہ ہی مٹا سکتی ہے امام علیمقام نے تاریخ اسلام کے اس اہم باب کا اختتام اپنی قربانی سے کردیا ۔ جس کی ابتدا خواب ابراہیم اور قربانی اسماعیل سے ہوئی تھی ۔ یہی وہ باب ہے جسے علاّمہ اقبال نے غریب و سادہ و رنگین قرار دیا ہے ،تاریخ کے قاری سے یہ بات مخفی نیست کہ اس غریب وسادہ CHAPTER میں یہ بلا کی رنگینی ، قربانیٔ سبطہ رسول انام ۖ سے معرض وجود میں آئی اسی لیئے تو شاعر مشرق علاّمہ اقبال کو کہنا پڑا :



back 1 2 3 4 5 6 7 next