ادیان الٰہی میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام حسین



سرِّ ابراہیم و اسماعیل بود یعنی آن اجمال را تفصیل بود

حضرت مام حسین سرّ اسماعیل و ابراہیم تھے یعنی اس اجمال کی تفصیل تھے ۔ مطلب یہ کہ حسین نے اپنے جدّ بزرگوار حضرت ابراہیم و اسماعیل کے پرو گرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور'' وفدیناہ بذبحٍ عظیم''کی تشریح و توضیح اور تفسیر نہایت ہی جلی حروف میں خاک کربلا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اپنے خون سے تحریر کر دی جب ہم جناب ابراہیم و اسماعیل علیم السلام کے واقعے کو بہ نظر عمیق مطالعہ کرتے ہیں اور ادھر سرکار امام حسین کے جذبۂ ایثار و قربانی کا ذکر سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میدان کربلا میں سید الشہداء نے اپنے جد اعلیٰ سیدنا ابراہیم کا کردار ادا کیا اور آپ کے فرزند سعید حضرت علی اکبرنے تأسی جناب اسماعیل میں سر تسلیم خم کیا ۔ اس شعر میں علاّمہ علیہ الرحمہ کا اشارہ جناب اسماعیل و ابراہیم کے اس جرأت مندانہ اقدام کی طرف ہے جو انہوں نے عشق الہیٰ میں مقام مناء پر ادا کیا ۔ اس خواب کی جلی تعبیر جگر گوشۂ رسولۖ فرزند علی و بتول نے قربانئی جناب علی اکبر سے پیش کردی :

صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

 

اس شعر میں علاّمہ صاحب نے عشق کی بات کی ہے ۔ عشق ایک مسلسل امتحان کا نام ہے نسل آدم سب سے پہلے حضرت آدم کا امتحان ہوا ۔ قصہ طویل ہے ۔مختصر یہ کہ آدم کامیاب ہوئے دستار فضیلت کے مستحق اور خلعت خلافت کے سزاوار قرار پائے ، حضرت نوح نے امتحان عشق طوفان بلاخیظ میں کشتی اتار کر پار کیا تو با مراد ہوئے ۔ یونس نے شکم ماہی میں امتحان عشق کی منازل طے کئیں۔ حضرت ذکریا نے بوقت امتحان عشق زیر آراہ مسکرا کر دیا ۔ جناب ابراہیم خلیل اللہ نے یہ امتحان نار ِ نمرود میں کود کر پاس کردیا۔ موسیٰ نے یہ امتحان کوہ طور پر جاکر ،عیسی مسیح نے سلیب پر چڑھ کر یہیں امتحان دیا ۔ اور آخری نبی ۖ نے تو اپنی پوری زندگی اسی امتحان میں گزار دی ۔ علی ٔمرتضیٰ نے تو مسجد کوفہ میں ابن ملجم کا خنجر لگنے اور ذوالقرنین بننے پر صاف کہہ دیا ۔ '' فز ت برب الکعبہ '' رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کامیاب رہا ۔امام حسن مجتبیٰ نے یہ امتحان زہرہلاہل کو بصورت قند پی کر پاس کیا اور پنجتن پاک کی آخری فرد امام حسین نے یہ امتحان سر نوک سناں یوں دیا کہ نبیوں کو حیراں کر دیا اور بالآخر علاّمہ اقبا ل علیہ الرحمہ کو کہنا پڑا کہ خلیل اللہ کے عشق اور خواجۂ بدرو حنین کے عشق کی طرح کا عشق صبر حسین نے پایا گیا ۔ حضرت ابا عبد اللہ الحسین کی ذات مبارک بنی نوع انسان کے لیے ایک آئیڈئیل ہے ایک مقصد ہے ایک طرز فکر ہے ایک مکتب جاویداں ہے حریت اور آزادی کے علمبردار ہے حضرت امام حسین کی قربانی ایسی تھی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی ۔خود بھی راہ خدا میں قربان ہو گئے اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی قربانی میں چھے ٦ ماہ کا بچہ بھی قربانی میں دے دیا ۔ دیکھئے روز عاشور امام حسین کی حالت خود ایسی تھی کہ بغیر ذبح کے شہید ہو جاتے انیس سو (١٩٠٠) زخم تلواروں کے نیزے کے تیروں کے مرنے کے واسطے کم نہ تھے فقط ایک تیر خولی کا جو قلب اقدس پر لگا اور پرنالہ کی خون جاری ہوا ایسا جانکاہ تھا کہ ونہی مر جانے کے لیئے کافی تھا مگر خدا نے ذبح عظیم کہا تھا بغیر ذبح ہونے کے خدا کا قول کیونکر پورا ہوتا ؟اور ذبح کے کیونکر فدیہ قرار پائے ؟جب حضرت گھوڑے سے گرے شمر ملعون آگے بڑھا سینہ ٔ اقدس پر سوار ریش مبارک ہاتھ میں لی اور تلوار سے ذبح کرلیا ۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اس کی دسویں تاریخ کو قربانی ہے اور ذوالحج اسلامی سال کے آخری مہینہ ہے اس کی دسویں تاریخ کو بھی قربانی ہے ہم مسلمانوں کا سال شروع بھی قربانی سے ہوتا ہے اور ختم بھی قربانی پر آغاز بھی قربانی ، انتہا بھی قربانی علاّمہ اقبال فرماتے ہیں :

 

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل



back 1 2 3 4 5 6 7