معیار شناخت(Epistemology)



''ولہذا مات رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وما نص بخلافة عنہ الی احد ولا عینہ لعلمہ ان فی امتہ من یاخذ الخلافة عن ربہ فیکون خلیفة عن اللہ مع الموافقة فی الحکم المشروع ۔ فلماعلم ذلک لم یحجر الامر.

صاحب کتاب ممدالہمم ،شرح فصوص الحکم ،ص ١٤٠، پر اس عبارت کی شرح کے بعد حاشیہ میں کہتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنا جانشین معین کیا ہے اور وہ امیر المومنین حضرت علی ـ ہیں ۔چنانچہ اس میں بھی شک نہیں ہے کہ رسول خدا نے رحلت کے وقت اپنا خلیفہ و جانشین معین نہیں کیا اس لئے کہ جب آپ ۖ نے کاغذ و قلم مانگا تو عمر نے کہا: کتاب خدا ہمارے لئے کافی ہے ( وان الرجل لیہجر) ''یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ''اوریہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے حضور میں نزاع و جھگڑے کی حد تک پہنچا جیسا کہ اس کی تفصیل فریقین (شیعہ سنی) کی کتابوں میں مذکور ہے ۔

جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ جانتے تھے کہ ان کی امت میں ایسا شخص موجود ہے کہ جو خلیفہ ہے اورحقیقت میں وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کا جانشین ہے ۔

اورا گر لفظ میں بہت زیادہ ثبوت وجمود کیا جائے تو کہنا چاہیئے کہ شیخ ،صاحب عصمت نہ تھے اور اول کتاب میں تصریح کے طور پر کہا ہے کہ میں رسول و نبی نہیں ہوں۔ لیکن وارث اور پاسبان آخرت ہوں۔ اور چونکہ وہ صاحب عصمت ،رسول اور نبی نہیں ہے لہٰذا اس کا کشف اس کے اعتقاد کے مطابق اورانس و الفت کے سابقہ کی بنا پر حق تعالیٰ کی جانب سے ہے جس میں اشتباہ واقع ہوا ہے ۔

 

فلاسفہ کا مکتب(School Of Philosophy)

فلاسفہ کی راہ و روش کے مطابق تنہا عقل معیار حق و حقیقت ہے اور اس مکتب میں جو کچھ بھی عقل و فکر اور دلیل سیحاصل نہ ہوں وہ معتبر نہیں ہیں اور وہ اعتبار سے ساقط ہیں، اس کو قبول نہیں کرتے ہیں ،لہٰذا یہ روش بھی پہلے والی راہ و روش کی طرح شرعی اور مکتب و حی کے مطابق مثبت اور منفی ہونے کے حوالے سے قابل ذکر نہیں ہے یعنی ایک فلسفی دلیل اور برہان کی بنیاد پرراستہ طے کرتا ہے وہ اپنی راہ و روش کے موافق اور مخالف ہونے کے نتیجہ کے بارے میںشریعت کو مورد توجہ قرار نہیں دیتا ہے اس ضمن میں اسلامی فلسفہ کے حوالے سے جو بات آتی ہے وہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے ۔

 

میری نظر میں اعتراضات میںسے ایک اعتراض جو راہ و روش فلسفی کے بارے میں ہے وہ یہ کہ کہا جاتا ہے عقل جہاںبھی واقعی معنیٰ میں راہ پیدا کرے جو کچھ بھی درک کرے اور حکم کرے تو بغیرکسی چوں و چرا کے قابل قبول ہے لیکن دوسری طرف بہت سے عقلاء اور دانشوروں کی طرف سے جو حکم ،اساسی اختلاف وہ بھی تضاد کی حد تک بہت سے مہم مسائل میں جو فلسفی کتابوں میں موجود ہیں ان کی طرف رجوع کر نے سے پتہ چلتا ہے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عقل کو تمام مسائل میں راہ نہیں حاصل ہے اس حوالے سے عقل محدود کی شعاع سے بہت سے مہم مسائل، نور عقل کے دسترس سے خارج ہیں نیز بہت سے مسائل، جو عقل کے دائرہ میں آتے ہیں ان مراحل میں بھی عقل کا ان حقیقتوں تک پہنچنا بہت دشوار دقیق ہے،یہاں تک کہ ان حقائق تک رسائی فقظ ان عظیم المرتبہ انسان کے بس میں ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next