قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (2)



 

حفظ نظام

یہ عوامل کا مجموعہ حفظ نظام اور اس کی فکری ضرورت کے پیش نظر ھے، صرف مسئلہ یہ تھا کہ نظام محفوظ رھے اور یہ ضرورت تمام ضرورتوں پر اولویت رکھتی تھی اور دوسرے عوامل یا تو اسے قوی بنانے یا وہ فرعی اور امر ثانوی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایسا طرز فکر طبیعی طور پر ھر قسم کے نطفہٴ اعتراض خواہ وہ عدالت کی برقراری یا سنت پیغمبر پہ عملی بازگشت کے عنوان سے ھوں، اسے وھیں دبا دے گا، اس تفکر کے دائرے میں مسئلہ یہ نھیں ھے کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے بلکہ اصل یہ ھے کہ عموم افراد اس نطام کو قوی، مستحکماور اس کی حفاظت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کریں اور جو بھی اس سے جدا ھے وہ مسلمانوں کی صف سے خارج ھے یھاں تک کہ دین سے خارج ھوجانے کا نتیجہ ھو جایا کرتا تھا۔ ان شرائط کے تحت حد اقل اعتراض اگر ھوسکتا ھے تو وہ قلبی اور شخصی ھو سکتا ھے یعنی انسان حاکم کی بدعتوں کو دل سے قبول نہ کرے لیکن چونکہ اس کے سامنے اعتراض کرنا مسلمانوں کی صف سے خارج ھوجانے کا باعث ھے لہذا اس کا اظھار نھیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کی ذمہ داری صرف قول و فعل کے بدلے دل سے انکار کرنا ھے۔ آنے والی داستان اس نکتہ کی خوب وضاحت کرتی ھے۔

ایک روز بغداد کے فقھا جمع ھوکر ابن حنبل کے پاس آئے اور کھنے لگے: اس شخص سے مراد عباسی خلیفہ واثق ھے جو مامون اور معتصم کی طرح خلق قرآن کی تبلیغ کرتا تھا، اس نے لوگوں کے عقائد کو فاسد کردیا ھے اور اپنے اس عمل سے باز نھیں آتا کچھ کرنا ھوگا؛ فقھا کا ارادہ یہ تھا کہ وھاں ابن حنبل سے اس کے مقابلہ میں ایستادگی(مقابلہ) کا فتوا حاصل کریں لیکن اس نے جواب میں کھا کہ تمھاری ذمہ داری صرف قلبی انکار ھے، آپ لوگ اپنے دل میں اس عقیدہ کا انکار کریں لیکن اس کے مقابلہ میں کھڑے ھونے یا اس کی مخالفت کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔[1]

ابن حنبل نے جو کچھ کھا وہ عافیت طلبی یا کسی ڈر کی وجہ سے نھیں تھا بلکہ وہ سختیوں کے دور کے قھرمان تھے جسے بعد میں ایام المحنة کا نام دیا گیا وہ خلق قرآن کے نظریہ کے اصلی ترین مخالفین میں سے تھے اور اس راہ میں اس حد تک اصرار کیا کہ ان کی بے حرمتی کی گئی اور انھیں بے حد مارا گیا، معتصم کے دور میں انھیں اس قدر تازیانے مارے گئے کہ نزدیک تھا کہ ان کی جان نکل جائے، ان کا جواب دینا عافیت طلبی کی وجہ سے نھیں تھا بلکہ وہ واقعا ایسی ھی فکر رکھتے تھے اور اسی کی وصیت بھی کیا کرتے تھے۔ [2]

لیکن وہ کیوں ایسی فکر کے حامل تھے یہ امر ان کے فقھی و کلامی مبانی سے مربوط ھے کہ جس کی طرف ھم نے اشارہ کیا، ان کا عقیدہ تھا کہ قھر و غلبہ اور تلوار کے زور پر امامت و خلافت ثابت تو ھوجاتی ھے اور جب وہ قائم ھوجائے تو کسی کو کوئی حق نھیں بنتا کہ وہ اس کے سامنے قیام کرے اور جو قیام بھی ھوگا وہ نامشروع ھوگا۔ پس جب نظام اور حفظ نظام اصالت کی شکل اختیار کرلیں تو اس صورت میں یہ امر کوئی اھمیت نھیں رکھتا کہ کون اس کے مالک ھیں، یا اس میں حاکم کے شرائط ھیں یا نھیں، یہ مسئلہ بے اھمیت ھوجائے گا۔ اصل نظام کا قدرتمند ھونا ھے نہ کہ وہ شرع و عدالت کے موافق ھے یا نھیں، یہ مسئلہ وجوب اطاعت و مشروعیت کا باعث بنتا ھے نہ کہ اس کی خصوصیات اطاعت و مشروعیت کا باعث ھے اور چونکہ ایسے شرائط حاکم میں پائے جاتے ھیں لہٰذا اس خلیفہ کی اطاعت واجب ھے جو خلق قرآن کا معتقد اور اس کی تبلیغ و ترویج کرتا ھے۔ اس لئے کہ لوگوں کا اعتقاد تھا کہ حاکم کی مخالفت کے نتیجہ میں ھونے والے نقصانات قولی و فعلی امر بہ معروف اور نھی از منکر کے نتیجہ میں حاصل ھونے والے فائدے سے کھیں زیادہ ھیں لہٰذا اس سے پرھیز کیا جائے۔ اگرچہ یہ ایک حق بات ھے، لیکن اگر اس کے حدود معین نہ ھوں اور ھر صورت میں اسے درست مان لیا جائے تو اس صورت میں استبداد اور دین و عدالت سے انحراف کے لئے ایک بھترین موقع فراھم ھو جائے گا جیسا کہ ایسا ھی ھوا بھی ھے۔ [3]

بالکل اسی بنیاد پر تھا کہ جس کی وجہ سے ابن حنبل نے کھا کہ واثق کے خلاف زبان اعتراض نہ کھولنا اور کوئی اقدام بھی نہ کرنا اور اسی نکتہ کی وجہ سے تھا کہ معتصم، شدت پسند، جاھل اور قدرتمند خلیفہ کو امیر الموٴمنین کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہ نوازیں، جب کہ اسی کے ھاتھوں شدید تریں شکنجے برداشت کئے۔ [4]

یھی وہ عوامل تھے کہ جس نے اھل سنت کے بزرگ علما کے ذھنوں میں مسئلہ امنیت اور اسکے نظامی تحفظ کی فکر ڈال دی بالخصوص تیسرا عامل نھایت موٴثر اور فیصلہ کن تھا، نیز یہ اھل سنت اور اھل تشیع میں ایک اساسی فرق تھا اور وہ عامل کہ جس کی وجہ سے شیعوں کو طول تاریخ میں مذمت یا انھیں سرزنش کی جاتی رھی، یھی تیسرا(آخری) عامل تھا۔ انھوں نے ھمیشہ کھا اور کھتے ھیں کہ شیعہ اپنے اقدامات کے ذریعہ مسلمانوں کی صفوں سے خارج اور اختلاف کے پیدا ھونے کا باعث ھیں، بلکہ بعض تو اسی علت کی وجہ سے امام حسین(علیہ السلام) پر اعتراض کرتے ھیں، کہ کیوں انھوں نے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف قدم اُٹھایا اور ان(کی صفوف) میں تفرقہ ڈالا۔ [5]

یھاں پر مسئلہ یہ نھیں ھے کہ امام(علیہ السلام) پر کی جانے والی تنقید صحیح ھے یا نھیں یعنی کیا امام(علیہ السلام) نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا یا مسئلہ کچھ اور تھا، یھاں جو چیز ھر ایک سے زیادہ اھم ھے وہ یہ ھے کہ یہ تنقید ان کے افکار اور اعتقاد کا نتیجہ ھے، ایسے خیالات کا مالک ھونا ایسی ھی تنقیدوں کا باعث ھوتا ھے اور ایسا ھوا بھی۔ وہ لوگ جو امام(علیہ السلام) پر اعتراض کرتے ھیں وہ ایسے خیالات کے مالک ھیں اور وہ لوگ کہ جنھوں نے اپنی زبانیں بند رکھیں ان مخصوص روایات کی وجہ سے ھے کہ جو آپ(علیہ السلام) کی شان میں ھیں بلکہ اھل سنت کے بزرگ علما نے ان روایات کو نقل بھی کیا ھے۔ یعنی مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے کی حرمت جو ان کے افکار کا ایک طبیعی نتیجہ تھا اور وہ روایات جو امام(علیہ السلام) کی شان اور مرتبہ پر دلالت کرتی ھیں، ان دونوں کے درمیان تضاد کو دیکھتے ھوئے احادیث کو اختیار کیا ھے، ان لوگوں کا خاموش رھنا بلکہ بعض مواقع پر تمجید و تعریف کرنا اسی علت کی وجہ سے تھا نہ اس وجہ سے تھا کہ واقعہ کربلا ان کے فقھی و کلامی موازین اور معیار سے موافق تھا۔ البتہ اس مقام پر اھل سنت کے ان علما کے سلسلہ میں ھماری بحث ھے جو الگ تھلگ اور حکومتوں سے وابستہ نھیں ھیں، ورنہ ان کے درمیان دین فروش اور ظلم و استبداد کے خوگر علما بھی ھیں جو فاسد حکام کے اعمال و کردار کی توجیہ کے لئے لاف و گزاف باتیں کرتے ھیں اور کھتے رھتے ھیں اگرچہ ان کی بات امام حسین(علیہ السلام) کی اھانت کا باعث ھی کیوں نہ بنے۔

ابن قیم کا نظریہ

اس مقام پر بھتر ھے کہ اھل سنت کے فقھا میں سے ایک عظیم فقیہ ابن قیم کے نظریہ کو ذکر کریں، وہ اپنی اھم اور واقعی کتاب اعلام الموقعین میں ایک جدا فصل بنام زمان و مکان، احوال و نیاتاور نتائج کے تغیر کے ساتھ فتوی کا مختلف اور متغیر ھو جانا ھے، وہ اس فصل میں کھتے ھیں: کہ کیا شریعت لوگوں کے دنیوی اور اخروی مصلحتوں کی وجہ سے بنی ھے؟ ایک مفصل بحث کرتے ھیں اور پھر نھی از منکر کے درجات اور اس کے شرائط کا تذکرہ کرتے ھیں اور اس نکتہ کے تحت اس طرح اپنے بیان کو جاری رکھتے ھیں: آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت نے نھی از منکر کو واجب قرار دیا ھے تاکہ اس کے ذریعہ وہ احکامات اجراء ھوں جسے خدا اور اس کا رسول پسند کرتا ھے، پس اگر اسی نھی از منکر کی وجہ سے کوئی عظیم منکر اور عصیان انجام پائے کہ جسے خدا اور اس کا رسول ناپسند کرتا ھے تو یہ جائز نھیں ھے اس لئے کہ خدا ایسے منکر کو پسند نھیں کرتا اور اسے انجام دینے والے کو عذاب دے گا جیسے کہ قیام اور خروج کے ذریعہ سلطان یا کسی والی(گورنر) کے لئے نھی از منکر کرنا، کیونکہ یہ نھی از منکر ابد تک کے لئے ھر فتنہ کی جڑ ھے، اصحاب نے آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت سے ان والیوں اور امیروں سے قتال کرنے کے سلسلہ میں سوال کرتے ھیں کہ جو نماز میں اس کے وقت سے تاخیر کرتے ھیں، تو کیا ھم ان سے قتال کریں؟ تو آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت نے جواب میں فرمایا: نھیں، جب تک کہ وہ نماز کو قائم رکھے ھوئے ھیں۔ اگر کوئی امیر کو کسی ایسے کام میں مشغول دیکھے جو اس کے نزدیک مکروہ ھے تو صبر کرے اور اس کی اطاعت سے منھ نہ موڑے۔اگر کوئی شخص اسلام پر وارد ھونے والی بڑی یا چھوٹی بلاوٴں کا تجزیہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ھوگا کہ یہ سب کچھ اس اصل پر عمل نہ کرنے اور منکر پر صبر نہ کرنے کا نتیجہ ھے۔ ان لوگوں نے ایک منکر کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے بڑی مصیبت میں گرفتار ھوگئے، آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت نے مکہ میں بڑے بڑے منکرات اور ناپسندیدہ امور کا مشاھدہ کیا، لیکن آپ میں اتنی قدرت نہ تھی کہ اس کی روک تھام کرتے۔ لیکن جب خداوندعالم نے مکہ کو آپ کے لئے فتح کردیا اور وہ دار السلام بن گیا تو پھر آپ نے خانہ کعبہ میں تبدیلی لانے کے لئے کمر ھمت باندھی اور اسے ویسا ھی بنایا جیساکہ جناب ابراھیم(علیہ السلام) نے بنایا تھا، لیکن جس بات نے آپ کو اس مھم سے روکے رکھا تھا درواقع آپ قادر بھی تھے لیکن ایک بڑے فتنہ میں گرفتار ھوجانے کا ڈر تھا، اس لئے کہ اس حرکت کو قریش برداشت نھیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ نئے نئے مسلمان ھوئے تھے اور کفر کو چھوڑے ھوئے انھیں زیادہ دن نھیں گذرے تھے، یھی علت تھی کہ جس کی وجہ سے آپ نے امیروں سے جنگ کا حکم نھیں دیا اور اس منکر کو روکنے کیلئے کوئی اقدام نہ کریں ورنہ اس سے بڑا فتنہ کھڑا ھوجائے گا۔ [6]

عدالت خواھی اور قدرت طلبی

اس مقام پر اھم یہ ھے کہ ان دو نظریات اور تفسیروں کے نتائج بالکل جد ا اور متفاوت ھوں گے تاریخ تشیع اور تسنن نیز ان کی موجودہ صورت حال کے تجربوں نے اس بات کو ثابت کردیا ھے کہ وھاں نظریات اور تفاسیر سے زیادہ انھیں دو مختلف اقسام کے نتیجہ سے متاثر ھیں، ان میں سے ایک مھم ترین فرق یہ ھے کہ دوران معاصر میں انقلابی عناصر اھل سنت کی حکومت میں بالکل شیعہ حکومت کے خلاف انقلابی عناصر جو عدالت خواہ اور قدرت طلب ھے، اس سے بالکل متفاوت ھے۔ [7]

دور حاضر میں حقیقی شیعوں کی سب سے بڑی مشکل بلکہ سب سے حساس ترین اور پریشان کن بات ان کی عدالت خواھی ھے۔ ان کے اسلامی اور سیاسی اعتقاد اور طرز فکر جو ان کے لئے الھام بخش اور ان کی تحریک کا سرچشمہ ھے وہ ان کی عدالت خواھی انصاف پسندی ھے وہ لوگ اُٹھ کھڑے ھوئے تاکہ عدالت کو پورے معاشرہ میں قائم کرسکیں، یا بالفاظ دیگر یہ کھنا مناسب ھے کہ انھوں نے قیام کیا ھے تاکہ ایسے اسلام کو برپا کریں جس کا اصلی پیغام عدالت اور اس کی برقراری اور استواری کو استحکام بخشیں جب کہ اھل سنت کے درمیان اٹھنے والی تحریکیں صرف اس لئے ھیں کہ وہ ایک قدرتمند اور باعظمت اسلامی مرکز کی بنیاد ڈالیں، صدر اسلام میں قائم مسلمانوں کی قدرت و شوکت کو دوبارہ پھلے ھی کی طرح برقرار کرنا چاھتے ھیں اور ان کی خواھش ھے کہ گذشتہ جیسی قدرت کے مالک رھیں اور ان کے لئے قدرت کے نمونے صدر اسلام میں خلفاء ھیں، ان کی نظر میں اسلام دین کے پھلے مرحلہ ھی میں ایک قدرت ھے اور اس کی تاریخ قدرت اور اقتدار ھے۔ لیکن ان کے مقابلہ میں شیعہ بلکہ اس دور کے شیعہ پھلے دور میں اسلام کو دین عدالت قرار دیتے ھیں اور اس کی اصلی تاریخ عدالت اور انصاف ھے مثلا ان کی نظر میں خلیفہ دوم کی مھم ترین خصوصیت قدرت و عظمت ھے اور ان لوگوں کی نظر میں امام علی(علیہ السلام) کی مھم ترین خصوصیت آپ کی عدالت اور مساوات ھے۔ وہ لوگ صدر اسلام کے تابناک اور درخشان دور میں خلفاء کی شکل میں ایسے قدرتمند افراد کو دیکھتے ھیں جو اس دور میں ایک عظیم حکومت حاکم تھی درحقیقت اس دور میں سچے خلفاء کی شکل میں عدالت و انصاف اور مساوات کا مظھر دیکھتے ھیں جو ایک سادہ انسان کی طرح زندگی گذارتے تھے اور تنھا دین و عدالت کی خاطر سر جھکاتے تھے اور بس۔[8]



1 2 3 4 5 6 next