قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (2)



درست یھی علت موجب تھی کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جب قدرت اور حکومت کی باگ ڈور ذمہ دار انقلابیوں کے ھاتھ میں آگئی، تو اس کے داخلی تغیرات کا عدالت اور عدالت اجتماعی کے اجرا کرنے یا اسے اجرا نہ کرنے کی بہ نسبت جائزہ لینا چاہئے۔ تمام نکات میں ھر ایک سے اھم نکتہ جو انقلاب کے بعد داخلی اُتار و چڑھاوٴ کی شکل میں نظر آتا ھے وہ یھی نکتہ تھا۔ اور دوسرے مسائل اسکے بعد اھمیت رکھتے تھے لیکن اگر بالفرض ایسا کوئی انقلاب اھل تسنن کی سرزمینوں پر واقع ھوتا تو یہ مسلم تھا کہ عدالت کی بہ نسبت لوگ اس قدر حساس نہ ھوتے بلکہ احتمال قوی تو یہ ھے کہ وہ اس انقلاب کو قدرتمند بنانے کی فکر میں رھتے۔ البتہ یہ روش اس انقلاب کے قدرتمند ھونے اورمکمل طورپر اجتماعی نیز مختلف افکار کے حامل عناصر کے جذب ھونے کا باعث ھوتی۔ [9]

انقلابی پوشیدہ توانائیوں کے مقامات

امنیت و عدالت کے متعلق ایسے تفکرات کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی ھے کہ اھل سنت کی حکومت میں ھونے والے اکثر قیام دینی اور ثقافتی لحاظ سے بامقصد تھے اور بھت کم ایسا ھوا ھے کہ ان میں سیاسی تحریکیں دیکھنے میں آئی ھوں، جبکہ تشیع کی حکومت میں فاطمی خلفاء کے ھونے کے باوجود سیاسی تحریکیں کثرت سے دیکھنے میں آئی ھیں، شیعوں کے نزدیک حکام کے خلاف قیام کے لئے تا حدکافی دلائل تھے۔ لہذا شیعوں کے نزدیک ایسے قیام کے وجود میں آنے کا امکان ان اھل تسنن کی بہ نسبت کھیں زیادہ تھا جن کے پاس نہ ایسے اصول تھے بلکہ ایسے قیام موجودہ نظام کے لئے مخل تھے لہذا ان کے نزدیک نامشروع اور ناجائز شمار کئے گئے ھیں۔

اھل سنت کے درمیان دین و تہذیب کی خاطر ھونے والے قیام تنھا ان کے نزدیک سیاسی و معاشرتی نظری اصول کے نہ ھونے کی وجہ سے نھیں تھا۔ معاشرتی و سیاسی میدان میں کہ جو جائز بھی ھو اور ان میں انقلابی عوام کی تغییر طلب توانائیوں کو اپنے اندر جگہ بھی دے سکے اور انھیں کامل ھدایت کرسکے، فطری طورپر ایسی تبدیلیاں اور اصلاحات وغیرہ دین و تہذیب کے دائرے میں امکان پذیر ھیں اورشیعوں کے لئے ایسی کوئی مشکل نھیں تھی جو اھل تسنن کیلئے ھے، بلکہ اس بات کا امکان بھی ھے کہ یہ انقلابی توانائیاںاپنے مشروع دائرے میں جاری ھوں خواہ وہ معاشرتی ھوں یا سیاسی یا اسلحوں کے ذریعہ ھی کیوں نہ ھوں، اس سلسلہ میں کوئی مشکل نہ تھی لہذا انقلابی توانائیاں اپنا ایک فطری مقام حاصل کرچکیں، لیکن اھل سنت کے لئے ایسا کوئی امکان نھیں تھا، ان کے وھاں عصیان و طغیان اور عمومی غم و غصہ کے اظھار کرنے کے مقامات بند کردئے گئے تھے؛ حاکم اور بدعتوں کے خلاف قیام نھیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی وجہ سے اکثر تحریکیں بے دینی اور کج فکری کو مٹانے کی خاطر وجود میں آئی تھیں بشرطیکہ ان کا حاکم سے کوئی ربط نہ ھو۔ کبھی یہ تحریکیں معتزلہ سے مقابلہ کے لئے کبھی شیعیت و تصوف اور فلاسفہ سے مقابلہ کے لئے تو کبھی مذاھب اربعہ اور فقھی اور کلامی مکاتب میں سے کسی ایک سے مقابلہ کے لئے اور کبھی لوگوں کے عقائد اور ان سے مقابلہ کے لئے وجود میں آتی تھیں جو ایک خاص، متعصب اور خشک مزاج گروہ کے لئے ناپسند تھے جس کی وجہ سے ان کے مال، ناموس اور خون ھدر اور حلال ھو جاتے تھے۔ [10]

تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کے درمیان ھونے والی لڑائیوں کے لامتناھی سلسلہ کا اصلی سبب یھی عامل تھا۔ ان فرقوں میں متعدد مشترک نکات کے ھوتے ھوئے جو انھیں ایک مرکزی نکتہ کی طرف راھنمائی کرتے تھے، ان نکات کے ھونے کے باوجود اسلام کی تاریخ میں اسلامی فرقوں کے درمیان خوں ریز لڑائیوں کی کثرت ھے۔ اس کے علاوہ اجتماعی، سیاسی اور قومی عوامل بھی دخیل رھے ھیں۔ لیکن اس نکتہ کو فراموش نھیں کیا جاسکتا کہ انقلابی توانائیوں کے خروج کے لئے جائز اور صحیح مقامات نہ ھونے کی وجہ سے کہ جس کی مدد سے سیاسی اورمعاشرتی اصلاحات انجام دی جاتیں ھیں، خود ایسی توانائیوں کے منحرف ھونے کا عظیم عامل ھے جو فطری ھونے کے ساتھ ساتھ ھے، جب ایسی توانائیاں اپنے جائز مقامات سے خروج کے لئے محروم کردی گئیں تو اس صورت میں یہ امر فطری ھے کہ یہ توانائیاں ان مقامات سے خارج ھوں گی جو ان کی نظر میں جائز ھوں گی۔ اور بجائے اس کے کہ اسے حاکم کے نظام کو برقرار کرنے کے لئے صرف کرے مختلف بھانوں سے خود مسلمانوں کیلئے وبال جان بن جائے گی۔ [11]

یہ بات مخصوصا اسلام جیسے دین کیلئے بھت اھم ھے۔ اسلام دوسرے ادیان کے مقابلہ میں کھیں توانا ھے کہ وہ انھیں اکٹھا کرنے اور اپنے اھداف کو حاصل کرنے میں قدرتمند ھے، دیگر ادیان بھی کم و بیش فردی کامیابیوں کے لئے اپنی توانائیوں کو صرف کرتے ھیں، دین کوئی بھی ھو اس کا آخری ھدف فرد کی فلاح اور کامیابی ھے، اسلام بھی ایسا ھی دین ھے، لیکن اس میں اور دیگر ادیان میں فرق یہ ھے کہ یہ انفرادی کامیابی اجتماعی کامیابی کے زیرسایہ حاصل ھوتی ھے کہ جو اس دین کی ترقی میں ھو۔

انتھائی کامیابی یہ ھے کہ یہ دین اپنے معاشرتی ھدف کو حاصل کر لے اور انسان اسی صورت میں کامیاب ھوگا کہ جب وہ اپنے آپ کو ایسے اھداف کے حصول کی خاطر وقف کردیاور چونکہ ایسا ھی ھے لہذا یہ دین یعنی دین اسلام دوسرے ادیان کے مقابلہ میں ھر ایک سے بھتر افراد کی پوشیدہ استعداد کو آشکار کرے اور ان صلاحیتوں کو اپنے اھداف کی کامیابی کے راستہ میں صرف کرے، یھی وجہ ھے کہ ا یک مسلمان کی یھی کوشش رھتی ھے کہ وہ اپنی استعداد کو زیادہ سے زیادہ اپنے دین کے پھیلانے میں صرف کرے اور فداکاری کی حد تک کوشش کرے، اس کا یہ عمل اس کی انتھائی کامیابی کا راز ھے۔ لیکن دوسرے ادیان میں یہ کامیابی ایک قسم کی نفسانی تمرین یا کسی فردی یا بعض اوقات اجتماعی کوششوں کی وجہ سے حاصل ھوتی ھے اور یہ کوشش بھی اسلام کی طرح اجتماعی اور اسے عمومی بنانے کے لئے نھیں ھوتی۔ لیکن اس دین میں یہ کامیابی اکثر انفرادی یا اجتماعی کوشش کے ذریعہ حاصل ھوتی ھے اور وہ بھی ایسی اجتماعی کوشش کہ جو اس کے اھداف کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ھو۔ اس درمیان اھم بس یہ ھے کہ اسلام میں اتنی توانائی ھے کہ وہ ایک مسلمان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو تجلی بخشے اور اس کی اچھی طرح پرورش کر کے انھیں استعمال کرسکتا ھے۔[12] یہ موضوع کی مزید وضاحت کے لئے اس سلسلہ میں بحث کی جائے۔

انسان میں فداکاری کا جذبہ

انسان کی ایک اھم خصوصیت یہ ھے کہ وہ اپنے آپ کو کسی دوسری شی کے ضمن میں یا کسی شی کے تحت الشعاع میں آنا چاھتا ھے، انسان کی یہ خصوصیت ثابت اور تغییر ناپذیر ھے اور اگر کسی شخص میں یہ خصوصیت ھو تو اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اس میں یہ خصوصیت بالکل نھیں جاتی ھے بلکہ یہ اختلال اس کے اندرونی پراکندگی کی وجہ سے ھے، ایسے لوگ مختلف اور گوناگون عوامل کے درمیان واقع ھوتے ھیں۔اور ان کی توانائیاں پراکندہ ھوچکی ھیں، نیز ان میں ایسی خصوصیات کو اظھار کرنے کی صلاحیت بھی نھیں ھے۔

لیکن وہ عناصر جو انسان کو اپنے جاذبہ میں لے سکتے ھیں ان میں ایک دین ھے کہ جو بدون شک ھر ایک سے اھم اور توانا ھے اور یہ ایسا صرف اس وجہ سے ھے کہ اس میں دین خواھی اور خدا پرستی کی فطرت موجود ھوتی ھے اور دوسری طرف خود دین عظیم مفاھیم کا مجموعہ اور صاف و شفاف ماھیت کا حامل ھے، یھی وہ اسباب ھیں کہ جس کی وجہ سے دین انسان میں اس کی تھوں تک نفوذ کرجاتا ھے اور اسکی مرئی اور غیر مرئی تمام طاقتوں کو خود استعمال کرتا ھے۔ اس مسئلہ میں اسلام اور دوسرے ادیان میں کوئی فرق نھیں ھے، لیکن عیسائیت ایسی خصوصیت سے سرفراز نھیں ھے قرون وسطی میں عیسائیت نے اپنے ماننے والوں کو اسی طرح استعمال کیا جس طرح اسلام نے اپنے ماننے والوں کو استعمال تھا۔ ایک عیسائی مبلغ یا جنگجو اسی جوش و ولولہ کے ساتھ جاںفشانی کرتا تھا کہ جس طرح ایک مسلمان مبلغ یا مجاھد کرتا تھا لیکن اس دور میں اسلام کے علاوہ تمام ادیان نے اپنی اس روش میں تجدید اور اس کا رخ بدل دیا ھے، بھت سی حقیقتوں، عناصر اولیہ اور اصول سے چشم پوشی کرلی ھے، موجودہ عیسائیت قرون وسطی کی عیسائیت کے مقابلہ میں درست اور ایک ایسے دین میں ڈھل چکی ھے کہ جس میں اپنی محدودیت کی وجہ سے اتنی صلاحیت نھیں ھے کہ وہ گذشتہ ایام کی طرح اپنے چاھنے والوں کی توانائیوں کو اکٹھا کرسکے اور انھیں اپنی خدمت میں لے سکے۔

اور آج جو عیسائیوں میں ایام سابق کی طرح قدرت نھیں پائی جاتی تو یہ اس وجہ سے نھیں ھے کہ وہ ضعیف ھیں بلکہ اکثراس عیسائیت کے ضعف کی وجہ سے ھے جس کے وہ معتقد ھیں اس لئے آج کی عیسائیت میں وہ قدرت اور قاطعیت نھیں ھے جو ایام سابق میں تھی بلکہ اس قدرت کی حامل نھیں ھے کہ جس کا ھر مذھب محتاج ھوتا ھے،جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دین اپنی بقا یا کسی دوسرے بھانوں کی وجہ سے تمدن جدید، اس کی ضرورتوں اور اس کے اقتضائات کی وجہ سے بلکہ اپنے مادی معیاروں اور نظام مادی کی وجہ سے قدم بہ قدم پیچھے ھٹتا جارھا ھے اور اپنی حقیقت کو کھوبیٹھا ھے اور موجودہ صورت کے مطابق ھونے کی فکر میں ھے، یہ امر جس طرح بھی واقع ھو وہ اپنی بچی کچھی توانائی بھی کھو بیٹھے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے ماننے والوں اور اپنے عاشقوں کے درمیان تبدیلی لانا چاھتا ھے گا تاکہ اس کی راہ میں جانثاری کرے، آج کے دور میں عیسائیوں کا ضعف ان کے ایمان کی وجہ سے نھیں ھے بلکہ اس عیسائیت کے ضعف کی وجہ سے ھے کہ جو آج کلیسا کے ذریعہ تبلیغ کیا جارھا ھے۔[13]

آج کے دور میں دوسرے ادیان اور خصوصا عیسائیت میں ایک بنیادی فرق یھی ھے۔ اسلام نے ایسے مختلف اسباب جو خود اس کی ماھیت سے مربوط ھیں اور ان کی وجہ سے دور حاضر میں اس راستہ کو نھیں انتخاب کیا جسے اپنا نے کے لئے دوسرے ادیان مجبور ھوئے او ر اسلا م ایسا کر بھی نھیں سکتا تھا، قرن حاضر کے متمد ن مسلمانوں نے بھت کوشش کی اور اس کی ماھیت سے چشم پوشی کرتے ھوئے آج بھی اسی انتخاب پر اصرار کررھے ھیں جسے دوسرے ادیان نے اپنالیا ھے۔ شاید یھی وہ اسباب ھیں کہ عصر حاضر میں جوانوں کے وہ اعتقادات نھیں ھیں جو ان کے آباء واجداد کے تھے یعنی اس کا مطلب یہ ھے کہ یہ دین نے زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصالت اور حقیقت، خلوص اور صراحت و قاطعیت، یقین اور تمامیت کی حفاظت کرنے کے بجائے سابق جاذبہ کو محفوط رکھا ھے اور ابھی اسی خلوص اور جاذبوں سے سرفراز ھے جن کا ایام سابق میں حامل تھا۔ جس طرح آج نسل جوان کو سیراب کررھا ھے اسی طرح قرون گذشتہ میں ان کے اسلاف کو سیراب اور انھیں استعمال کیا ھے۔[14]



back 1 2 3 4 5 6 next