قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (2)



[9] بطور نمونہ رشید رضا کا مشھور و معروف خطبہ غرا ملاحظہ ھو جو کہ میدان منی میں شریف حسین کی خلافت سے متعلق ثورة العرب ضد الاتراک ص/۳۲۰۔ ۳۲۶ نیز اسی جگہ رشید رضا کی تقریر کے بعد شریف حسین کی تقریر کا مطالعہ کریں، ص/۳۴۲، نیز کتاب العواصم من القواصم پر محب الدین الخطیب کے مقدمہ کو ملاحظہ کریں جس میں اس نے اموی خلفاء کی صرف اس وجہ سے تعریف کی ھے کہ انھوں نے اپنی قدرت اور شاٴن و شوکت کے سھارے اسلام کی حکومت کو پھیلانے میں کوششیں کی تھیں (ص/۳) اور کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین، ۲۹۹، ۳۱۹۔

[10] بھترین نمونوں میں سے ایک نمونہ وہ خط ھے جسے مصر کے مشھور مجاھد اور مصنف زینب الغزالی نے یاسر عرفات کے نام لکھا تھا، اس وقت کہ جب تونس میں اسرائیلی جھازوں نے فلسطین کی آزادی بخش گروہ کے کیمپ پر حمل کیا تھا۔

[11] اسلام میں مختلف فرقوںکے درمیان خونین جنگوں کی فھرست بڑی طولانی ھے،اور اس میدان میں حنابلہ کا کردار ھر ایک سے زیادہ رھا ھے،یہ صرف اس وجہ سے تھاکہ ان کے اعتقادات عوام پسند، خشک اور ایسے تشدد آمیز ذھنی دباوٴ اور دفاع کرنے والے جس نے ان عقائد کو جنم دیا یھاں تک کہ اشاعرہ جو اپنے تعصب میں مشھور و معروف ھیں وہ بھی ان لوگوں کی شیطنت، خشک مزاجی اور قساوت و سنگدلی سے گلہ مند رھے ھیں۔ جیسے کہ ایک زمانہ میں چند اشعری علما اپنے زمانہ کے فرقہ اشعری کے رئیس ابو القاسم قشیری کی حمایت میں خواجہ نظام الملک کو ایک خط لکھتے ھیں اور اس میں حنابلہ کی شرارتوں کی شکایت کرتے ھیں اور اس سے اشاعرہ کی بہ نسبت حمایت کی خواھش کرتے ھیں،لیکن تعجب تو یہ ھے کہ یہ خط اس وقت لکھا گیا ھے کہ جب اشاعرہ اور شافعی کا بول بالا تھا۔ اس خط کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ھے کہ کس حد تک حنا بلہ اپنے علاوہ مذھب والوں پر سختی کرتے تھے۔“

بغداد میں عوام الناس اور کچھ حشویہ گروہ کے لوگ اور چند اوباش اور پست فطرت لوگوں نے جو اپنے آپ کو حنبلی کھتے تھے ایسی ایسی بدعتیں اور ایسی بدکرداریاں انجام دیں کہ جسے ایک ملحد بھی انجام نھیں دے سکتا تھا چہ جائیکہ کوئی موحد انجام دے اور خدا کی طرف ھر اس چیز کی نسبت دی کہ جس سے وہ عاری ھے خواہ وہ نقص ھو یا حدوث و تشبیھات۔ ان لوگوں نے گذشتہ اماموں کی بے حرمتی کی، دینداروں اور اھل حق کو طعنہ دیئے۔ مساجد، بازار، محافل اور خلوت و جلوت میں ان پر لعنت کی۔“

الملل النحل، استاد سبحانی، ص/۲۷۹۔ ۲۸۲ ایسی سیکڑوں داستانوں کو طبقات الحنابلہ نامی کتاب میں دیکھا جاسکتا ھے جسے خود انھوں نے لکھا ھے اور جس میں انھوں نے اپنے علما کی سوانح حیات اور عظمت و شان بیان کی ھیاور یہ داستان ان کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا ایک نمونہ ھے: طبرستان سے بغداد کی طرف طبری کے دوسرے سفر میں ایک روز طبری مسجد جامع میں پھنچ گئے، وھاں حنبلیوں نے امام احمد ابن حنبل اور خد ا کے عرش پر بیٹھنے کے سلسلہ میں وارد ھونے والی روایت کے بارے میں طبری سے سوال کرلیا تو ا س نے جواب دیا کہ احمد ابن حنبل کی مخالفت کو اھمیت نھیں دی جاسکتی اور مشابہ بھی نھیں ھے تو حنبل نے کھا: لیکن علما نے اپنے اختلافات ھیں اسے بیان کیا ھے، تو طبری نے کھا کہ نہ میں نے اسے اس روایت کو نقل کرتے ھوئے دیکھا ھے اور نہ ھی ان کے اصحاب میں کسی سے سنا ھے جو کہ معتمد شخص رھاھو، لیکن خدا کا عرش پر بیٹھنا محال ھے۔

حنبلی اور اھل حدیث نے جیسے ھی طبری کا نظریہ سنا، اس پر حملہ آور ھوئے اور اپنے قلم و دوات اس کی طرف پھینک دیئے، طبری نے بھاگ کر اپنے گھر میں پناہ لی، چونکہ حنبلیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی لہذا ان لوگوں نے اس کے گھرکے سامنے اس قدر پتھر برسائے کہ پتھروں کا ایک ٹیلہ ھوگیا ھے۔ بغداد کے پولیس افسر نازوک نے اسی وقت ہزاروں کی فوج لیکر وھاں پھنچ گیا اور طبری کو حنبلیوں کے شر سے نجات دی اور پورے دن وھیں ٹھھرا رھا، اس کے گھر سے پتھروں کو اٹھانے کا حکم دیا، وھابیان، ص/۲۷ اسی طرح آپ ملاحظہ کریں، ساتویں صدی کے مشھور مجاھد اورعظیم شخصیت عز ابن عبدالسلام کی مصیبتوں کو کہ جسے حنبلیوں کی جانب سے متحمل ھوئے تھے الاسلام بین العلماء و الحکام ص/۱۹۲۔

[12] یہ بالکل شیعوں کے آئمہ کی ضد میں اپنایا گیا ھے، ا ن لوگوں کی نظر میں عوام کو فاسد بنانے میں نظام حاکم کا کوئی نقش نھیں ھے اسی وجہ سے وہ لوگ جس طرح اجتماع کی اصلاح کے قائل تھے اسی طرح ھر فرد کی اصلاح کے قائل تھے۔ یھا ں تک کہ وہ موارد جس میںمسیر حق سے انحراف ھیں ذاتی شیطنت کے علاوہ دوسرے عوامل دخیل تھے اور ایسی خصوصیت کے ساتھ قدرت کسی فرد یا نظام کے ھاتھ میں تھی ایسے افراد سے مقابلہ کے لئے کوئی خاص عکس العمل کا اظھار نھیں کرتے جیساکہ امام علی(علیہ السلام) نے اپنے بعد خوارج کے سلسلہ میں یہ وصیت کی: میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کرنا اس لئے کہ جو حق کی جستجو میں ھو اور بھٹک جائے، اس شخص کے جیسا نھیں ھے کہ جو باطل کی تلاش میں ھو اور اسے حاصل کرلے۔ خطبہ، ۶۱ نھج البلاغة، تصحیح صبحی صالحی۔

دین اسلام اپنی ابتداء سے ھی لوگوںکو اپنی خدمت میں لینے مخصوصا جوانوں کو اپنی خدمت میں لینے میں کامیاب رھا ھے، کسی بھی دین کا ایسی خصوصیات سے سرفراز ھونا انسانی خصوصیات سے ھم آھنگی انسان کی طرف ھوتی ھے۔ یہ ایک ایسا اثر اور جاذبہ ھے جو ابھی تک باقی ھے اور باقی رھے گا۔ اس سلسلہ میں حجازیوں کے سامنے ابوحمزہ خارجی کی تقریر ملاحظہ کی جاسکتی ھے کہ جس پر اس کے چاھنے والوں کے جوان ھونے کی وجہ سے تنقید کی گئی تھی۔ ”۔۔۔ اے اھل حجاز! کیا تم میرے چاھنے والوں کے جوان ھونے پر مجھے ملامت کرتے ھو، کیا ایسا نھیں تھا کہ آنحضر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ت کے اصحاب جوان تھے۔ خدا کی قسم یہ اپنی جوانی میں بھی بزرگ ھیں، جن کی آنکھیں شر سے محفوظ اور کان امر باطل کے سننے سے سنگین ھیں، جو شدت عبادت اور زندہ داری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ھوچکے ھیں، خدا رات کی تاریکیوں میں ان پر نظر کرتا ھے اس حال میں کہ ان کی پشت قرآن کی طرف جھکی ھوئی ھے، جب ان کی نگاھیں قرآن کی ان آیات پر پڑتی ھیں کہ جن میں بھشت کی خبر دی گئی ھے تو شدت شوق سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ھیں۔ اور جب ان آیتوں سے گذرتے ھیں کہ جن میں جھنم کا تذکرہ کیا گیا ھے تو شدت خوف سے چیخ مارتے ھیں گویا وہ جھنم کی وحشتناک آواز کو سن رھے ھوں۔۔۔ جنگ کے ھولناک ترین لحظات میں لشکر میں پیش پیش افراد جب موت کے خوف سینہ سپر شمشیر کی چمکاور نیزہ کی کھنک دیکھ کر خوفزدہ ھوجاتے ھیں تو دشمن کے خوف کو خدا کے ترس کے مقابلہ میں اسے اپنا کھلونا بنا لیتے ھیں۔ وہ لوگ ایسے حالات میں برابر آگے بڑھتے جاتے ھیں اور اپنے ھی خون سے اپنی داڑھیوں میں خضاب لگا لیتے ھیں، درندے ان کی جسموں کی طرف دوڑتے ھیں اور پرندے ان کی طرف متوجہ ھوجاتے ھیں، کتنی آنکھیں ھیں جو شب کی تاریکیوں میں خوف خدا میں گریاں ھوئیں وہ پرندوں کی چونچ کا نشانہ بن گئیں؟ اور وہ ھاتھ جو رات کی تاریکی میں سجدوں کے طولانی ھونے کہ وجہ سے زمین پر پڑے رھے، وہ گٹے سے جدا ھوگئے؟۔۔۔“ البیان والتبیین، ج/۲، ۱۰۲، ۱۰۳، اس نے اپنے جوان پیروکاروں کی جو تعریف کی ھے کہ وہ دین کی سربلندی کے علاوہ کچھ اور نھیں سوچتے اور جان و دل سے اس کی راہ میں فداکاری کے لئے آمادہ ھیں، یہ توصیفات ھر زمانہ میں صحیح ھیں۔ بطور نمونہ مجلہ النذیر عضو اخوان لمسلمین سوریہ کے مختلف شماروں کی طرف نیز ان کتابوں کا بھی مطالعہ کریں کہ جن میں اسلام کے فدائیوں کے حالات زندگی بیان کئے گئے ھیں اسی طرح ”پیغمبر و فرعون۔“ نامی کتاب بھی ملاحظہ ھو

[13] مزید وضاحت Ú©Û’ لئے On Being a Christian:  مخصوصا ص/Û³Û±Û” Û³Û´ ملاحظہ Ú¾Ùˆ

[14] گیب ان خصوصیات کی درستگی کا سرچشمہ اسلام کو جانتا ھے ”اسلام کا اعتقادی نظام محکم، مثبت اور موٴکد ایک مجموعہ ھے اور یہ تمام خصوصیات قرآن، حدیثاور سنت و شریعت کی مرھون منت ھیں



back 1 2 3 4 5 6 next