قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (2)



[15] سعودی اخوان کی اخلاقی اور دینی اور ذھنی خصوصیات اور ان کے اقدام کے سلسلہ میں تحقیق کرنا بھتر ھے جو ایک بھترین نمونہ ھے لہذا رجوع کریں کتان ”وھابیان“ ص/۴۴۶۔ ۴۵۹ مثلا حافظ وھبہ جو خود نزدیک سے انھیں جانتا ھے اور ان کی جنگوں کا چشم دید گواہ ھے وہ ان کے سلسلہ میں کھتا ھے: اخوان موت سے نھیں ڈرتے۔ شھادت اور خدا سے ملاقات کے لئے موت کے منھ میں پھنچ جاتے ھیں اور جب ایک ماں اپنے بیٹے کو میدان جنگ کی طرف روانہ کرتی ھے تو اس سے کھتی ھے جاوٴ کہ خدا ھم دونوں کو بھشت میں ایک دوسرے سے دوبارہ ملاقات کا موقع دے، جب وہ اپنے دشمن کی طرف حملہ کرتے ھیں تو ان کا شعار <ایاک نعبد وایاک نستعین> ھوتا ھے، میں خود ان کی بعض جنگوں کا مشاھدہ کر چکا ھوں، میں نے خود دیکھا کہ وہ کس طرح میدان جنگ کی طرف جاتے تھے، دشمن کی صفوف کو درھم برھم کرتے ھوئے انھیں شکست دینے اور انھیں قتل کرنے کے علاوہ کچھ اور نھیں سوچتے، ان کے دلوں میں ذرہ برابر بھی شفقت و مھربانی کا نرم گوشہ نھیں ھے ان کے ھاتھوں سے کوئی بچ نھیں سکتا جھاں بھی وہ پھنچ جائیں موت کے قاصد ھیں“ ”وھابیان“ ص/۴۵۲ جو کتاب العرب فی القرن العشرین ص/۳۱۴، سے منقول ھے اور جان فیلبی ان کے سلسلہ میں اس طرح بیان کرتا ھے: اخوان نے قبائل عرب سے قتل و غارت گری، عیاشی اور رہزنی کو ختم کردیا اور وہ لوگ جو کچھ بھی کرتے تھے اپنی آخرت کے لئے کرتے تھے۔ اپنے علاوہ ھر ایک کو بلکہ بقیہ تمام اسلامی فرقوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتے تھے۔ ”وھابیان“ ص/۴۴۹ جو تاریخ نجد کے ص/۳۰۵۔ ۳۰۸ سے منقول ھے۔

[16] شافعیوں اور حنفیوں، ماتردیوں اور اشعریوں، اھل سنت اور شیعہ و معتزلی کے درمیان شدید تعصب مسلمانوں کی کمزوری کا ایک عظیم سبب ھے۔ جو بھی مقدسی کے سفرنامہ اور یاقوت کی معجم البلدان کا مطالعہ کرے گا اسے معلوم ھوجائے گا کہ یہ تعصبات کس قدر قتل و غارتگری، فتنہ و فساد، ھنگامہ آرائی اور شور شرابہ کا باعث بنے ھیں۔ ظھر الاسلام، ۴، ص/۱۰۲

۳۵۰ھ میں ایک طرف اھل سنت اور سوڈانی سپاھیوں میں تو دوسری طرف شیعوں میں ایک عظیم اختلاف اور کشمکش پیدا ھوئی۔ سوڈانی سپاھی سڑکوں پر جسے بھی پاتے اس سے سوال کرتے کہ تمھارا ماموں کون ھے اگر وہ جواب میں معاویہ نھیں کھتا تو اس کی بری طرح ناقابل تحمل پٹائی کرتے اور اسے گالم گلوج سے نوازتے بلکہ کبھی کبھی یھی چیز اس کی موت کا سبب بن جاتی تھی۔ اسی طرح ۴۰۸، ۴۴۴، ۴۴۵، ۴۴۹ ق، میں وحشتناک فتنہ اٹھے اور دونوں گروھوں سے ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے۔ الفکر السیاسی الشیعی، ص/۲۸۰، اس کے مزید نمونوں کے حصول کے لئے اسی کتاب کا ص/۲۷۹، ۳۸۱ نیز کتاب اسلام بلا مذاھب ص/۲۸۵۔ ۲۸۸ ملاحظہ ھو۔

[17] تمام اسلامی فرقوں میں شیعہ ھر ایک سے زیادہ اپنے دشمنوں Ú©ÛŒ جانب سے حملوں کا شکار رھا۔ اور اس Ú©Û’ بھی مختلف اسباب تھے منجملہ یہ کہ ابتداء اسلام میں مسلمان ائمہ اطھار Ú©ÛŒ جانب اھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ھونے Ú©ÛŒ وجہ سے ان سے نزدیک اور انھیں اپنا محبوب بنائے ھوئے تھے جو عباسیوں اور امویوں Ú©Û’ اقتدار Ú©Û’ لئے ایک خطرہ تھا جس Ú©ÛŒ بنیاد پر وہ کسی بھی آزار Ùˆ اذیت سے دریغ نھیں کرتے تھے۔ کتاب اسلام بلامذاھب‘ ص/Û²Û¸ÛµÛ”

[18] تمام اسلامی فرقوں میں شیعہ ھر ایک سے زیادہ اپنے دشمنوں Ú©ÛŒ جانب سے حملوں کا شکار رھا۔ اور اس Ú©Û’ بھی مختلف اسباب تھے منجملہ یہ کہ ابتداء اسلام میں مسلمان ائمہ اطھار Ú©ÛŒ جانب اھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ھونے Ú©ÛŒ وجہ سے ان سے نزدیک اور انھیں اپنا محبوب بنائے ھوئے تھے جو عباسیوں اور امویوں Ú©Û’ اقتدار Ú©Û’ لئے ایک خطرہ تھا جس Ú©ÛŒ بنیاد پر وہ کسی بھی آزار Ùˆ اذیت سے دریغ نھیں کرتے تھے۔ کتاب اسلام بلامذاھب‘ ص/Û²Û¸ÛµÛ”

[19] اکثر وہ لوگ جو ھندوستان، افریقا اور دور دراز شرقی ممالک میں شیعوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے اور اپنی طاقتوں کا استعمال کرتے ھیں، وہ اسی فکر کے زیراثر ھیں۔ وہ اپنی گردنوں پر اسلام کی نسبت ذمہ داری کو پورا کرنے کی فکر میں ھیں لہذا جان کی حد تک اسلام اور اس کی سربلندی کی خاطر سعی و تلاش کرتے ھیں۔ لیکن چونکہ ان کے پاس اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا کوئی ذریعہ نھیں ھے نیز جھالت کی وجہ سے وھابیوں کی زھریلی اور جھوٹ و فساد سے مملو شیعوں کے خلاف تبلیغ کی زد میں ھیں لہذا شیعوں سے مقابلہ کو اپنا فرض سمجھتے ھیں، ان سے جنگ کو اپنا ھدف اور اسے بطور صحیح انجام دینے کی کوشش میں ھیں پس انھیں ان وھابیوں سے جدا کرنا ھوگا جو اپنے منافع کی خاطر ایسا اقدام کرتے ھیں، ”افریقا: میراث گذشتہ و موقعیت آئندہ“ نامی کتاب ص/۱۱۲، ۱۱۴ ملاحظہ ھو۔

[20] ۱۴۳ھ میں علماء اسلام نے حدیث و فقہ اور تفسیر کی کتابیں لکھنا شروع کیں، اسی دور میں ابن جریح نے مکہ میں لکھا، مالک نے مدینہ میں موطاٴ تحریر کی اور اوزاعی نے شام میں اسی طرح ابن ابی عروبہ اور حماد ابن سلمہ اور دوسروں نے بصرہ میں لکھنا شروع کیا، معمر یمن میں، شفیان ثوری کوفہ میں، ابن اسحاق نے کتاب مغازی تحریر کیاور ابوحنیفہ نے فقہ و راٴی نامی کتابیں لکھیں اور مختلف علوم کی تدوین اور نشر و اشاعت عام ھوگئی اس طرح مختلف کتابیں عربی علوم، لغت، تاریخ، وغیرہ کے سلسلہ میں بے شمار وجود میں آئیں۔ اس دور سے پھلے علما اپنے حافظہ کے سھارے مطالب بیان فرماتے تھے اور غیر تدوین شدہ صحیح صحیفوں سے نقل کرتے تھے۔ تاریخ خلفاء، ص/۲۶۱۔

اس بات کی تحقیق کرنے کے لئے کہ صدر اسلام میں احادیث بنوی کے نہ لکھنے میں کن عوامل کا ھاتھ تھا، کتاب الملل والنحل ص/۵۱۔ ۷۱ نیز کتاب اضواء علی السنة المحمدیة ص/۲۶۱، ملاحظہ کرسکتے ھیں اور جب یہ دور ختم ھوگیا تو اس کے بعد کے علما کتابیں لکھنے پر چندان مائل نھیں تھے لیکن جب ھشام نے زھری کو لکھنے پر مجبور کیا تو اس کے بعد سے علما نے قلم سنبھا لا اور لکھنا شروع کیا۔ سابق حوالہ ص/۲۶۲۔

[21] مقدمہ وسائل الشیعہ ج/۱، ص/۳۵، ۴۹ اور عباسیوں کی دینی سیاست کے سلسلہ میں موٴسسہ آل البیت سے چھپی کتاب کی طرف رجوع کریں۔

 Goldziher ,Muslim Studies , pp . 75-77.

[22] اوائل اسلام میں عباسیوں Ú©Û’ ابتدائی ادوار میں غیر عرب مخصوصا ایرانیوں Ú©Û’ نفوذ کا اس روایت سے اندازہ لگایا جاسکتا Ú¾Û’Û”Û” منصور Ù†Û’ عید نوروز Ú©Û’ دن امام موسی بن جعفر  (علیہ السلام) سے تقاضا کیا۔ کہ عمومی ملاقات Ú©Û’ لئے تشریف رکھیں اور زیارت کرنے والوں Ú©Û’ تحفوں Ú©Ùˆ قبول فرمائیں، لیکن امام Ù†Û’ انکار کردیا تو منصور Ù†Û’ جواب میں کھا کہ یہ رسم سیاسی مصلحت اور لشکریوں Ú©Ùˆ خوش آمد Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ لئے Ú¾Û’Û” جواھر الکلام ج/۵، ص/Û´Û²

[23] اس آخری صدی میں اھل سنت کے تفکرات بالخصوص وہ تفکر جو علما اور سلاطین و خلفاء سے مربوط تھے، شدت سے تنقید کا نشانہ بنے ھیں اور تنقید کرنے والے مختلف گروھوں اور جماعتوں سے تعلق رکھتے ھیں اور مختلف اسباب کی بنیاد پر انھیں اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنائے ھوئے ھیں۔ ان میں سے بعض دینی علما ھیں جیسے شیخ کُشک، خالد محمد خالداور اخوان المسلمین سے وابستہ دوسرے علما دین مخصوصا ًسید قطب،ان لوگوں کے علاوہ بقیہ مخالف جماعتیں اور آزاد فکر حضرات ھیں، ان میں سے بعض کی تنقیدوں جو پھلے گروہ سے تعلق رکھتے ھیں اصلاحی، سنوارنے والی اور ھمدردانہ ھیں۔ لیکن دورے گروہ کی تنقیدیں تباہ کن، نقصان دہ، فتنہ انگیز اور بزدلانہ ھیں شیخ کشک کے نظریات کو معلوم کرنے کے لئے رجوع کرسکتے ھیں ”پیامبر و فرعون“ ص/۲۱۹۔ ۲۲۰۔ خالد محمد خالد کے نظریات معلوم کرنے کے لئے رجوع کریں الشیعہ فی المیزان ص/۳۷۵، ص/۳۷۸ اخوان المسلمین کے طرفدار علما کے نظریات کے لئے رجوع کریں الاخوان المسلمون والجماعات الاسلامیة ص/۲۶۲۔ ۲۷۰۔ دوسرے گروہ کے نظریات معلوم کرنے کے لئے الاسلام والخلافة فی العصر الحدیث ص/۹۔ ۳۴ مخصوصا ً، ص/۱۸۔ ۲۳ اور کتاب الاسلام واصول الحکم میں محمد عمارہ کا مقدمہ ملاحظہ ھو۔

[24] چوتھی صدی کی ابتدا میں حکومت عباسی کی اکثر سرزمینیںمحلی حکومتوںکے تابع تھیں، ان سرزمینوں میں ظاھری رابطہ بس اتنا ھی تھا کہ صرف خلیفہ کا نام لیا جاتا تھا اور اس کا خطبہ پڑھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا رابطہ نھیں تھا، جس کی وجہ سے عباسی حکومت بغداد اور اس کے اطراف میں محدود ھوکر رہ گئی تھی نظام الوزارة فی الدولة العباسیة ص/۱۹۔



back 1 2 3 4 5 6