قدرت اور عدالت اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک (2)



بھرحال ھماری بحث اسلام کے سلسلہ میں یہ تھی کہ اس میں اتنی قدرت ھے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی پوشیدہ قدرتوں کو آشکار کرے اور انھیں اپنا عاشق بنالے اور انھیں اپنے اھداف کی راہ میں اکٹھا طاقتوں کو اپنے اھداف و مقاصد کی ترقی میں استعمال کرے لیکن نکتہ یھاں پر ھے کہ جب بھی طاقتیں یہ پروان چڑھیں اور آشکار ھوئیں انھیں سیاسی و اجتماعی میدان میں ظاھر ھونے کا موقع نھیں مل سکا اور انحراف اورتعصب کا شکار ھوگئیں۔ اور پھر اس شی کے مقابلہ میں آجاتی ھیں جسے بدعت کا نام دیا جاتا ھے، جب احساسات اور عواطف جوش میں آتے ھیں تو عقل و منطق بیکار ھوجاتی ھے، اس صورت میں انسان بدعتوں کا مقابلہ کرکے دین سے متعلق اپنے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ھے، ایسے موقع پر اس کے لئے یہ کوئی اھمیت نھیں رکھتا کہ جس پر وہ حملہ کر رھا ھے وہ اس کا خونی بھائی ھے یا دینی بھائی،بلکہ اس کی نظر میں مدمقابل سے مقابلہ دین سے اخلاص کا ایک وسیلہ ھے اور اس کا یہ عمل دین و حق اور قرآن و پیغمبر کی نصرت کی مانند ھے، یہ صرف اس وجہ سے ھے کہ وہ سامنے والے کو منحرف سمجھ رھاھے اگرچہ اس کا انحراف ظنی یا وھمی ھی کیوں نہ ھو، اس کی کوشش رھتی ھے کے اس سے مقابلہ کرکے اپنی ایثار و قربانی کی آگ کو خاموش کرے اور پوشیدہ فداکاری کو آشکار کرسکے۔[15]

اسلامی تاریخ میں اھل تسنن کے درمیان خونین جنگوں کے حوادث کم نھیں ھیں۔ مقام تعجب ھے کہ حنفی، شافعی۔[16]اھل حدیث یا غیر اھل حدیث کے درمیان شیعوں کی بہ نسبت خونین جنگوں کی کثرت ھے۔[17] یھاں تشیع یا غیر تشیع کا مسئلہ نھیں تھا۔ البتہ جس نکتہ کو ھم نے بیان کیا اس کے تحت اھل تسنن کے طرف سے شیعہ مخالف حرکتیں اور شیعوں کی طرف سے اھل سنت مخالف تحریکیں کھیں زیادہ وجود،میں آئی ھیں، اس لئے کہ شیعہ ھمیشہ سے اقلیت میں رھے ھیں اور اھل تسنن کی مانند فقھی و کلامی محدودیتوں کی وجہ سے اجتماعی و سیاسی تحریکوںاور انقلابی توانائیوں کو بروئے کار لانے نیز ان تحریکوں کے سھارے تبدیلیاں پیدا کرنے کی فکر میں نھیں تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کے نزدیک فقھی و کلامی مبانی اور مذھبی طرز تفکر نیزتاریخی تجربہ اس طرح نھیں تھے کہ جو اھل سنت کو دین سے خارج ھونے کا نام دے دیتے۔[18]بلکہ بنیادی مشکل یہ تھی کہ دینی خلوص کو ظاھر کرنے کے لئے بدعت کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ نھیں تھا لیکن ھم نے اس بات کو بھی ذکر کردیا ھے کہ ان بدعتوں سے مقابلہ کیا جاتا تھا کہ جو حاکم وقت سے مربوط نہ ھوں۔ گویا بدعتوں سے مقابلہ نے دینی فدا کاری کے اصل و بنیاد کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا، اس لئے کہ اس کے اظھار کرنے کے تمام راستہ مسدود ھوچکے تھے، یعنی ”اپنے آپ کو دین کے عظیم اھداف کی راہ میں قربان کردینا“ اور اس طرح یہ بدعتوں سے مقابلہ کی صورت اختیار کرگیااور یہ ایسی حرکت تھی جو اب بھی باقی ھے۔[19]

 Ø­Ø§Ú©Ù… نظام کا طرز تفکر

ابھی تک جو کچھ بھی بیان ھوا ھے وہ شیعوں اور سنیوں کے قرن اول و دوم سے متعلق سیاسی نظریا ت کا سلسلہ تھا اور یہ کہ کس طرح اھلسنت کی فقہ اور ان کاکلام وجود میں آیا۔ اور اس اسلوب نے اسے تحقق بخشنے میں کیا کردار پیش کیا۔ لیکن بعد والی صدیوں میں یہ بنیادیں کیونکر واضح ھوئیں اور اس میں تبدیلیاں آئیں، یہ ایک مستقل موضوع ھے کہ جس پر روشنی ڈالے بغیر موجودہ صورتحال کے سلسلہ میں تحقیق نھیں کی جاسکتی۔ کیونکہ بالخصوص انھیں ادوار میں اھل تسنن کے اجتماعی، مذھبی اور نفسیاتی گروہ عملی طورپر وجود میں آئیاور انھیں ایام میں خلفاء بنی عباس کا دینی اور سیاسی طریقہ کار نھایت موٴثر اور یقین آور رھا ھے اگرچہ اھل سنت کے سیاسی اور فکری اصول خلفاء راشدین، بنی امیہ اور مخصوصا معاویہ کے دورمیں بنائے گئے تھے لیکن درحقیقت یہ بنی عباس تھے جنھوں نے اسے ایک خاص شکل میں پیش کیا اور اسے قطعی بنایا، انھیں دین کی ضرورت تھی اور اس کا اظھار بھی کیا کرتے تھے اور اپنی حکومت کو قوی و مضبوط بنانے اور اسے دوام و استمرار عطا کرنے کے لئے ممکن حدتک اس سے استفادہ بھی کرتے تھے۔[20]

اسلامی علوم، فقہ، حدیث، تفسیر، کلام، رجال اور تاریخ کی تدوین و نشر اشاعت کی بازگشت بھی انھیں کے دور میں ھوتی ھے لہٰذا ان کی عمومی سیاست کی وجہ سے یہ امر طبیعی تھا کہ یہ مسئلہ ان کے مصالح و منافع کے زیراثر قرار پائے۔ اور ھوا بھی ایسا ھی یھاں تک کہ اھل سنت کی فقہ اور کلام اس دور کے معاشرہ پر حاکم نظام سے وابستہ ھوگئے اور انجام یہ ھوا کہ یہ ایک موجودہ نظام کی آئیڈیالوجی نے اسے توجیہ کرنے اور اسے مشروع بنانے کی شکل اختیار کر لی۔[21] اور جب عباسی خلافت کا قلع قمع ھوگیا اور اس کی بنیاد گرگئی تو اس کے بعد بھی یہ پیوند باقی رھا اور صاحبان قدرت کی خدمت کا مقام بنا۔

اس نکتہ کی مزید توضیح ضروری ھے۔ درحقیقت واقعیت یہ ھے کہ عباسی خلفاء اپنی خلافت اور قدرت کو مضبوط بنانے کے لئے سابق خلفاء سے کھیں زیادہ دین کے محتاج تھے، امویوں کے دور میں اسلامی معاشرہ عباسیوں کے دور سے کھیں زیادہ منسجم اور متحد تھا اس کے علاوہ جدید مسلمان امویوں کے دور میں نظام جدید سے مرعوب اور ایک ایسی قدرت کے سامنے تسلیم تھے جس نے ان شکست خوردہ ممالک کے سلاطین کے تختہ الٹ دیا تھا، وہ تازہ مسلمان یا تو ان گذشتہ حوادث کا نظارہ کررھے تھے یا عربوں کے رقیب یا عرب نسل لوگوں کی خادم بنے ھوئے تھے جو قدرت کی خاطر کھڑے ھوئے تھے، ان کے درک کرنے کے لئے سالھا سال درکار تھے پھر کھیں وہ موٴثر اور فعال انداز میں سیاسی اور اجتماعی بلکہ دینی اور ثقافتی مسائل میں شرکت کرسکتے تھے۔

یھاں تک کہ امویوں کی مدت تمام ھونے لگی یعنی غیر عرب مسلمانوں نے اسلامی معاشرہ میں قدم رکھ دیا جس کا انجام یہ ھوا کہ اموی شان و شوکت کی نابودی کے اسباب فراھم ھوگئے اس کے علاوہ متعد د گروہ اس میدان میں سامنے آگئے اور اس کے تمام جوانب کو مضبوظ بنادیا دوسرا مسئلہ جدید افواج کی موجودگی تھی جو سیاسی نعرہ لگا رھی تھیں بلکہ اسے دینی اور ثقافتی جنبہ بھی حاصل تھا جس کی بناپر کثرت سے مثبت نتائج کے باوجود سیاسی اور اجتماعی پراکندگی میں اضافہ ھوا۔[22]

انھیں اسباب و علل کی وجہ سے امویوں کے مقابلہ میں عبا سیوں کا اقتدار زیادہ پائیدار ھوا۔[23]یہ اس وجہ سے نھیں تھا کہ عباسی خلفاء امویوں کے مقابلہ میں نالائق یا شدت پسند تھے بلکہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے تھا، عباسیوں کا دور ایسا نھیں تھا کہ جس میں امویوں کی سیاست کو باقی رکھا جاتا اور اگر یھی اموی عباسیوں کے دور میں ھوتے تو اسی سیاست کو اپناتے جسے عباسیوں نے اپنایا تھا۔ اور انھیں جیسی قدرت کے مالک بھی ھوتے۔

اس مقام پر جو نکتہ قابل اھمیت ھے وہ یہ ھے کہ ان شرائط نے اھل سنت کی فقہ و کلام پر خصوصاً ان ایام میں اپنا اثر چھوڑ دیا اور اسے رونق مل گئی یعنی خلیفہ کا فوجی قدرت میں ضعیف ھونا اس بات کا باعث ھوا کہ اس کی قدرت کو محکم بنانے کے لئے دین کا سھارا لیا جائے، درحقیقت دین اس قدرت کا قائم مقام بن گیا جسے تلوار کے زور پر حاصل نھیں کیا جاسکتا تھا۔

لیکن اس کا ھرگز یہ مطلب نھیںھے کہ اھل سنت کے تمام وہ علما جنھوں نے ایسے امور انجام دیئے ھیں خلیفہ کے حکم کے تابع تھے یا کسی اور منفعت کی خاطر انجام دیا ھو، بلکہ ان لوگوں کے درمیان ایسے علما بھی تھے جنھوں نے دین کی حفاظت اور لوگوں کی سلامتی کے لئے اسی طریقہ کا انتخاب کیا تھا، اس دور میں ان لوگوں کے لئے اس بحرانی اور کشمکش کے دور میں جو مسئلہ سب سے زیادہ اھم تھا وہ اسلام کی ایک قوی مرکزیت اور دین کی حفاظت کرنے والوں اور دیگر لوگوں کی جان ومال کی محافظت تھی، جبکہ حاکم ایسی مرکزیت کو تن تنھا ایجاد نھیں کرسکتا لہٰذا دین سے مدد لینا مسلم تھا اس لئے کہ اسی کی مدد سے ایسی مرکزیت ایجاد کی جاسکتی تھی۔

اس طرح دین ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں آگیا۔ لیکن اسکا مطلب یہ نھیں ھے کہ دین سماج اور حکومت کو چلانے میں موجودہ نظام کے آئیڈیالوجی کی ضرورتوں کے پیش نظر جواب گو ھو بلکہ بیشتر ایک پشت پناہ کی حیثیت سے تھا جو کم و کاست اور ضعف کی تلافی کرسکے، البتہ یہ تلافی اس وقت ممکن تھی کہ جب موجودہ نظام میں ظاھری اعتبار سے سھی شرع کی رعایت کرے، یھاں اس بات کا امکان نھیں تھا کہ لوگوں کو اعتقادی اعتبار سے حاکم کے مقابلہ میں قیام کا حکم دیا جاتا اور وہ دین کا دفاع کے عنوان لے کر اُٹھ کھڑے ھوتے، جبکہ یہ نظام کلی طورپر اس کے ظواھر سے بے پرواہ تھا۔[24]



back 1 2 3 4 5 6 next