اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر



 

بدگمانی کی ممانعت

امام علی ں نے ہمیں دوستوں کے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات ہم دوستوں سے یا اسی طرح دوسرے افراد سے ایسا عمل سرزد ہوتے دیکھتے ہیں جسے ہم نیکی او رحسن نیت پر مبنی بھی سمجھ سکتے ہیں او ر اسے شر اوربدی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اسی موقع کے لۓ امام علی ںنے فرمایا ہے: اِیّٰاکَ وَسُوءَ الظَّنِّ (بدگمانی سے پرہیز کرو) یعنی کہیں ایسانہ ہو کہ کسی کے منفی پہلو کو اس کے مثبت پہلو پر ترجیح دو ۔ کیونکہ اس طرح تم دوسروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دو گے ۔او رتم اگر دوسروں پر اعتماد سے محروم ہو جائو بالخصوص جبکہ وہ تمہارے دوست بھی ہوں تو یہ بد اعتمادی ممکن ہے تمہاے تعلقات کا خاتمہ کر دے اور تمہاری دوستی میں شگاف ڈال دے اور دوسرے لوگوں سے تمہارے روابط کو پیچیدگیوں کا شکار کر دے۔ حضرت علی ں سے ایک جملہ نقل ہوا ہے جو انسان کو ایک اصول فراہم کرتا ہے جو بتاتا ہے کہ انسان جب بھی کسی دوسرے انسان کے کسی قول یا عمل کا سامنا کرے تو اس کے بارے میںمثبت راۓ رکھے۔حضرتں فرماتے ہیں: ضَع اَمرَ اَخِیکَ عَلیٰ اَحسَنَہُ (اپنے بھائ کے عمل کی توجیہ بہترین گمان سے کرو) ۔ یعنی اگر تمہارا دینی بھائ کوئی ایساکام انجام دے جو مختلف احتمالات او ر پہلوئوں کا حامل ہو۔ یعنی اس میں اچھا احتمال بھی پایا جاتا ہو اور برا احتمال بھی تو برے احتمال پر اچھے احتمال کو فوقیت دو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس پر برائ کا حکم نہ لگائو جبکہ اس سے اچھائ کا پہلو نکلالنا بھی ممکن ہو۔ وَلاٰتَظُنَّنَّ بکلمۃٍ خَرَجَت مِن اَخِیکَ سُوء اً وَاَنتَ تَجِدُلَہَا فِی الخَیرِمَحمِلاً اپنے بھائی کے منھ سے نکلنے واے الفاظ کے متعلق بدگمانی سے کام نہ لو جبکہ تم اس کلام کے متعلق اچھا احتمال بھی دے سکتے ہو۔ بالفرض اس کی بات میں ۹۹ فی صد بری نیت نظر آ رہی ہو اور صرف ایک فی صد اچھی نیت کا امکان دکھائ دے رہا ہو تو کہو کہ شاید یہی ایک فی صد والا پہلو اس کی مراد ہو۔

 

 Ø§ÙˆØ± اسلام اسی نظریے پر اپنے ماننے والوں Ú©ÛŒ تربیت کرنا چاہتا ہے جو اسلام Ú©Û’ عدالتی اصولوں سے ساز گار ہے۔ اگر ملزم پر الزام ثابت نہ ہو سکے تو ایسے مواقع پر وہ بری ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص Ú©Û’ ہاتھ میں ریوالور ہو او راس Ú©Û’ سامنے ایک لاش Ù¾Ú‘ÛŒ ہوئی ہو، تو فوراً ہی یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہۓ کہ جس شخص Ú©Û’ ہاتھ میں ریوالور ہے وہی قاتل ہے۔ اسلامی عدالت کہتی ہے کہ یہ شخص ملزم ہے اسے مجرم نہ کہو جب تک کہ دلائل اور ثبوت اس Ú©Û’ جرم Ú©Ùˆ ثابت نہ کردیں کیونکہ ممکن ہے Ú©Ú†Ú¾ نامرئ اور پوشیدہ عوامل سامنے آئں جن Ú©ÛŒ بنیاد پر وہ شخص جرم سے بری ہوجاۓ۔ البتہ قدرتی بات ہے کہ حسنِ ظن رکھنے Ú©Û’ معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم ملزم Ú©Ùˆ جرم سے سوفی صد بری سمجھیں،بلکہ مراد یہ ہے کہ نہ اسے صد فی صد مجرم سمجھیں او رنہ ہی اسے صد فی صد بے گناہ جانیں۔ بلکہ اس جگہ او راس سے ملتی جلتی صورتوں میں فرد Ú©Ùˆ صرف ملزم سمجھیں یہاں تک کہ حقیقتِ امرواضح ہوجاۓ ۔اور اصولاً ملزم ومجرم میں فرق ہے دونوں بالکل علیحدہ مقولے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی Úº فرماتے ہیں: لاٰیَغلَبَنَّ عَلَیکَ سُوءُ الظَّنِّ فَاِنَّہُ لاٰیَدَعُ بَینَکَ وَبَینَ صَدِیقٍ صَفحاً کہیں ایسانہ ہو کہ تم پر بدگمانی غالب آجاۓ۔ اس صورت میں تمہارے اورتمہارے دوست Ú©Û’ درمیان بخشش اور در گزر Ú©ÛŒ کوئی گنجائش نہ رہے گی۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر کسی Ú©Û’ منھ سے کوئی اچھا کلمہ سنیں تو اسے برے کلمے میں تبدیل کردیتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں میں کوئی خوبی نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگ ان بدبخت افراد Ú©ÛŒ مانند ہیں جن Ú©ÛŒ نظر میں زندگی کا صرف تاریک پہلو ہوتا ہے Û”

 

 Ù…ثلاً عباسی دربارکے معروف شاعر ابن رومی Ú©Û’ متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز میں سے منفی پہلو نکالنے میں ماہر تھا۔ ایک مرتبہ اس Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ دوستوں Ù†Û’ تفریح کا پروگرام بنایا اور اسے مدعو کرنے Ú©Û’ Ù„Û“ ایک شخص Ú©Ùˆ جس کا نام حسن تھا اس Ú©Û’ پاس بھیجا ۔جب حسن ابنِ رومی Ú©Û’ پاس پہنچا تو ابن رومی Ù†Û’ اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس Ù†Û’ کہا: حسن۔ یہ سن کرابن رومی Ù†Û’ لفظ حسن Ú©Û’ الفاظ Ú©ÛŒ جگہوں Ú©Ùˆ تبدیل کر دیا او رکہا: نَحساً یعنی تم نحس اور بد شگون ہو اور یہ کہہ کر دروازہ بند کرلیا۔اس Ú©Û’ دوستوں Ù†Û’ دوسرے شخص Ú©Ùˆ بھیجا جس کا نام اقبال تھا۔ ابنِ رومی Ù†Û’ اس Ú©Û’ نام Ú©Û’ حروف Ú©Ùˆ ادل بدل دیا او رکہا: لابقا (نہ رہنے والا) اور دروازہ بند کرلیا۔ جی ہاں! بعض افراد ابنِ رومی Ú©ÛŒ طرح نفسیاتی الجھائو (Complex) کا شکار ہوتے ہیں او رلوگوں Ú©Û’ بارے میں بدگمان رہتے ہیں۔بعض اوقات لوگ کوئی ایسی بات کرتے ہیں جس میں خیر کا احتمال پایا جاتا ہے نیز بہت سے صحیح معنی موجود ہوتے ہیں لیکن اس قسم Ú©Û’ لوگ اس بات میں سے برے احتمال Ú©Ùˆ ترجیح دیتے ہیں اور اسکے بارے میں اچھے احتمال کا اظہار نہیں کرتے Û” یہ بات ہمیں سیاسی اعتقادی اجتماعی اور شرعی مسائل میں بھی نظر آتی ہے۔ ایسے افراد Ú©Û’ نزدیک بدگمانی سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں ہوتی اور جب انھیں ٹوکا جاتا ہے کہ اس درجہ بدگمانی نہ کرو تو جواب میں کہتے ہیں: سو Ø¡ الظن من حسن الفطن (بدگمانی ذہانت اور چالاکی میں سے ہے) جبکہ انھیں معلوم نہیں کہ بدگمانی نہ صرف ذہانت Ú©ÛŒ علامت نہیں بلکہ عدالت عقل او رحکمِ شرعی Ú©Û’ برخلاف ہے بالخصوص اس وقت جب بد گمانی کسی فرد Ú©Û’ متعلق Ø­Ú©Ù… Ú©ÛŒ بنیاد واساس بن جاۓ۔ دوستی Ú©Û’ رشتے میں استحکام اور مضبوطی سے متعلق حضرت امام علی ÚºÚ©ÛŒ ایک حدیث ہے: Ù…ÙŽÙ† نَاقَشَ الاِخوَانَ قَلَّ صَدِیقُہُ جو کوئی اپنے دوستوں سے کڑا حساب لیتا ہے ان پر سخت نکتہ چینی کرتا ہے اس Ú©Û’ دوست Ú©Ù… ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوشش نہیں ہونی چاہۓ کہ اپنے دوستوں Ú©ÛŒ بات بات پر نکتہ چینی کرو اور ان Ú©ÛŒ ایک ایک سانس تک شمار کروکیونکہ کوئی چیز ایسی نہیں جس میں سے خامیاں نہ نکالی جا سکیں۔بقول شاعر

 

 Ø§ÙØ°Ù°Ø§Ú©ÙÙ†ØªÙŽ فی کُلِّ الاُمُورِ مُعَاتِباً

 ØµÙŽØ¯ÙÛŒÙ‚ÙŽÚ©ÙŽ Ù„ÙŽÙ… تَلقِ الَّذِی لاٰتُعٰاقِبُہُ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next