اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر



رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہترین دوست کے متعلق سوال ہوا ۔ اَیُّ الاَصحَابِ اَفضَلُ؟ قَالَ اِذَا ذَکَرتَ اَعَانَکَ وَ اِذَا نَسِیتَ ذَکَّرَکَ سب سے بہتر دوست کون ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: جب تم (خدا کو) یاد کرو تو تمہاری مدد کرنے والا اور جب تم (خدا کو) بھول جائو تو تمہیں (اس کی) یاد دلانے والا۔یعنی سب سے بہترین دوست وہ ہے کہ جب تم خدا کی یاد میں مشغول ہو جب تم دوستوں کے حقوق اور تمام اچھی باتوں کو یاد رکھے ہوۓ ہو تو وہ ان تمام امور میں تمہارا مددگار ہو۔ اور اگر تم خدا کو فراموش کر دو بھائوں کے حقوق اور اچھائوں کو بھلا بیٹھو تو وہ تمہیں ان امور کی پابندی کی جانب متوجہ کرے۔ ایسا ہی شخص تمہارا بہترین دوست ہے جو بھول اور غفلت کے عالم میں بھی تمہاری معاونت کرے اور یاد اور توجہ کے عالم میں بھی تمہارا مددگار ہو۔ ایک دوسرے مقام پر رسول خدا نے فرمایاہے: اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبدٍ خَیراً جَعَلَ لَہُ وَزِیراً صَالِحاً اِن نَسِیَ ذَکَّرَہُ وَ اِن ذَکَرَ اَعَانَہُ جب بھی پروردگارِ عالم کسی بندے کی بھلائ چاہتا ہے تو اس کے لۓ ایک اچھا وزیر مقرر فرما دیتا ہے کہ اگر وہ بھولا ہوا ہو تو (یہ وزیر) اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس سے تعاون کرتا ہے۔ یعنی اگر خدا کی طرف سے عائدکردہ فرائض اور ذمے داریوں کو بھولا ہوا ہو تو یہ دوست اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے اپنے فرائض اور ذمے داریاں یاد ہوں تو یہ دوست ان کی انجامدہی میں اسکی مدد کرتا ہے۔

 

دوست کا حق

اب ہم دوست کے حقوق کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حضرت امام سجاد ںسے رسالۂ حقوق میں نقل ہوا ہے: اَمَّا حَقُّ الصَّاحِبِ فَاَن تَصحَبَہُ بِالتَّفَضُّلِ وَ الاِنصَافِ البتہ دوست کا حق یہ ہے کہ اس سے فضل اور انصاف کے ساتھ پیش آئو۔ یعنی خدمت گزاری تعظیم و تکریم اور بخشش و عطا کے ذریعے اس کے ساتھ فضل و احسان کرو یا کم از کم اس کے ساتھ انصاف کرو اور اسے اس کا حق دو ۔وَ تُکرِمُہُ کَمَا تُکرِمُکاس کی ویسی ہی عزت کرو جیسی وہ تمہاری عزت کرتا ہے۔ وَلَاتَدَعہُ یَسبَقُ اِلٰی مَکرَمٍَۃ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شرافت اور بزرگی میں پہل کر جاۓ۔ یعنی ادب و احترام اور جو چیزیں مکارمِ اخلاق میں شمار ہوتی ہیں ان میں تم اس پر مقدم رہو ۔ فَاِن سَبَقَ کَافَأتَہُ اور اگر وہ پہل کر جاۓ تو اسے اسکا بدلا دو۔وَ تَوَدُّہُ کَمَا یَوَدُّکَ وَ تَزجُرُہُ عَمَّا یَہُمُّ بِہِ مِن مَعصِیّۃٍَ اس کے ساتھ اسی طرح محبت سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے اور اسے اس گناہ سے روکو جس کا وہ مرتکب ہو تا ہے۔ اگر دیکھوکہ وہ ذوق و شوق کے ساتھ گناہ کرتا ہے اور اس کی طرف راغب ہے تو دوستی کا حق یہ ہے کہ تم اسے ارتکاب ِ گناہ سے منع کرو۔ وَ کُُن عَلَیہِ رَحمَةً وَ لَاتَکُن عَلَیہِ عَذَاباً اس کے لۓ رحمت بنو عذاب نہ بنو۔ بیماری فقر و فاقے خوشی اور غمی ہرحال میں اس کے لۓ رحمت ثابت ہو ان مشکلات میں اسے فراموش نہ کرو۔ حضرت امام زین العابدین ںسے روایت ہے: وَ حَقُّ الخَلِیطِ اَن لَاتَغُرَّہُُ وَ لَاتَغُشَّہُ وَ لَاتَخدَعُہُ وَ تَتَّقِی اللّٰہَ تَبَارَکَ َو َتعَالیٰ فِی اَمرِہِ دوست کا حق یہ ہے کہ اسے دغا نہ دو نہ اس کے ساتھ فریب کرو نہ ہی اسے دھوکہ دو اور اس کے بارے میں پروردگارِ عالم سے ڈرو۔ مفضل کہتے ہیں کہ: دَخَلتُ عَلَی اَبِی عَبدِ اللّٰہِ فَقَالَ لِی: مَن صَحِبَکَ؟ فَقُلتُ: رَجُلٌ مِن اِخوَانِی قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ فَقُلتُ: مُنذُ دَخَلتُ المَدِینَةَ لَم اَعرِف مَکاَنَہُ فَقَالَ لِی :اَمَا عَلِمتَ اَنَّ مَن صَحِبَ مُؤمِناً اَربَعِینَ خَطوَةً َساَلہَ ُاللہُ عَنہُ یَومَ الِقیَامَۃِ میں حضرت امام صادق ںکی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت نے مجھ سے فرمایا: تمہارا ساتھی کون تھا (یعنی سفر میں تمہارے ساتھ کون تھا؟) میں نے عرض کیا: میرا ایک بھائ (یعنی میں اسے نہیں جانتا تھا) فرمایا: وہ کیا کام کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا: مدینہ تک مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ امام (ع) نے فرمایا :کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی بھی کسی مومن کے ساتھ چالیس قدم سفر کرے گا تو پروردگارِ عالم روزِ قیامت اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔

 

 Ù„ہٰذا انسان جس کسی Ú©Û’ ساتھ بھی سفر کرتا ہے اسے اس پر حقِ ہم نشینی حاصل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اسے معلوم کرنا چاہے کہ وہ کیا کرتا ہے؟ کہاں جا رہا ہے؟ اس Ú©Û’ حال احوال کیسے ہیں؟ اور اس وقت تک اس سے جدا نہ ہو جب تک ان تمام امور Ú©Û’ بارے میں واقفیت حاصل نہ کرلے۔ حضرت علی Úº کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو: ایک روز حضرت علی Úº ایک یہودی Ú©Û’ ساتھ سفر کر رہے تھے۔ آپ ایک راستے سے جانا چاہتے تھے جبکہ اس یہودی Ú©ÛŒ خواہش تھی کہ دوسرا راستہ اختیار کیا جاۓ۔ لیکن امام Ù†Û’ اس کا ساتھ نہ چھوڑا (اور اس Ú©ÛŒ اختیار کردہ راہ پر آپ بھی چلنے Ù„Ú¯Û’) یہاں تک کہ وہ دوراہا Ø¢ گیا جہاں سے آپ Ú©Ùˆ اس یہودی سے جدا ہونا تھا۔ یہاں پہنچ کر بھی آپ اس Û’ علیحدہ نہ ہوۓ اور Ú©Ú†Ú¾ دور تک اس Ú©Û’ ساتھ چلتے رہے۔ یہودی Ù†Û’ کہا: اے ابوالحسن ! آپ کا راستہ تو اس طرف ہے کیا آپ کا خیال بدل گیا ہے اور آپ Ù†Û’ اپنی منزل بدل دی ہے؟ امام Ù†Û’ فرمایا :نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم Ù†Û’ فرمایا ہے کہ: جب کبھی تم کسی Ú©Û’ ساتھ سفر کرو تو تم پر اسکا حق یہ ہے کہ امن Ú©Û’ مقام تک اس Ú©Û’ ہمراہ چلو اور اسکے بعد اس سے جدا ہو۔ یہودی Ù†Û’ پوچھا: کیا یہ آپ Ú©Û’ پیغمبر کا فرمان ہے ۔امام Ù†Û’ جواب دیا: ہاں۔ یہودی Ù†Û’ کہا :اپنا ہاتھ بڑھایۓ Û” (آپ Ù†Û’ ہاتھ بڑھایا) یہودی Ù†Û’ آپ Ú©Û’ بڑھے ہوۓ ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا: اَشہَدُ اَن لاَ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہُ ÙˆÙŽ اَن َّمُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ Ú©Û’ سواکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس Ú©Û’ رسول ہیں) اس طرح وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔ ہم اس واقعے اور اما Ù… علی Ú©Û’ یہودی Ú©Û’ ساتھ اس سلوک سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مناظرے اور علمی وفلسفی بحثوں Ú©ÛŒ نسبت اسلامی اخلاق Ú©Û’ ذریعے کہیں زیادہ دوسروں Ú©Ùˆ اسلام Ú©ÛŒ طرف جذب کیا جاسکتا ہے۔

 

 Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û اس طرح Ú©Û’ عمل عقل قلب احساس اور شعور پر چھا جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ اپنے عمل Ú©Û’ ذریعے اسلامی اخلاق Ú©ÛŒ جانب لوگوں Ú©ÛŒ رہنمائی کریں جیسے کہ امام صادق Ù†Û’ فرمایا ہے: کُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم لِیَرَوا مِنکُم الصِّدقَ ÙˆÙŽ الخَیرَ ÙˆÙŽ الوَرَعَ فَاِنَّ ذَالِکَ دَاعِیَۃٌ لوگوں Ú©Ùˆ اپنی زبان Ú©Û’ بغیر (عمل سے) اسلام Ú©ÛŒ طرف دعوت دو۔ لوگ تم میں سچائ عملِ خیر اور پرہیزگاری دیکھیں Û” بلاشبہ یہی چیزیں دعوت دیتی ہیں۔ پس اگر ہم حق Ú©ÛŒ راہ اپنا کر لوگوں Ú©Û’ ساتھ سچائ پر مبنی طرز عمل اپنائں پارسائ اور امانت Ú©Ùˆ اپنا شعار بنائں تو ہمارا یہ عمل لوگوں Ú©Ùˆ خودبخوداسلام Ú©ÛŒ جانب لانے کا موجب بنے گا کیونکہ لوگ اس طرزِ عمل میں اسلام Ú©Ùˆ مجسم دیکھیں Ú¯Û’Û” مولا علی ÚºÚ©ÛŒ ایک حدیث ملاحظہ فرمائں: لاٰتَقطَعُ صَدِیقاً ÙˆÙŽ اِن کَفَرَ دوستی Ú©Û’ رشتے Ú©Ùˆ نہ توڑو خواہ تمہارا دوست کافر ہو۔لہٰذادوستوں سے میل ملاپ اور تعلقات ضروری ہیں خواہ وہ آپ Ú©Û’ ایمانی دوست ہوں یاسماجی زندگی میں بن جانے والے دوست۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے دوستی کا رشتہ قطع نہ کریں چاہۓ وہ مومن ہوں چاہے کافر۔

 

 Ø§Ø³ حدیث سے امام Ú©ÛŒ یہ مراد محسوس ہوتی ہے کہ ہمیں کفار Ú©Û’ ساتھ بھی اسلامی اخلاق Ú©Û’ ساتھ پیش آنا چاہۓ ممکن ہے ہمارے اس سلوک سے وہ اسلام Ú©ÛŒ طرف مائل ہو جائں۔ آخر میں ہم امام علی ںکا ایک قول نقل کر رہے ہیں جو نصیحت Ùˆ موعظہ بھی ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان Ú©Û’ واقعی دوست کون سے افراد ہیں۔ فرماتے ہیں: اِنَّ لِلمَرئِ المُسلِمِ ثَلاَثَۃُ اَخِلاَّء ہر مسلمان انسان Ú©Û’ Ù„Û“ تین طرح Ú©Û’ دوست ہیں۔ فَخَلیِلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَکَ حَیّاً ÙˆÙŽ مَیتِّاً ÙˆÙŽ ہُُوَ عِلمُہُ ایک دوست ایسا ہے جو اس سے کہتا ہے کہ میں زندگی او ر موت دونوں ہی میں تمہارے ساتھ ہوں ۔یہ اس کا علم ہے۔ انسان کا علم موت Ú©Û’ وقت بھی اس Ú©Û’ ساتھ اسی طرح رہے گا جیسے زندگی میں اس Ú©Û’ ساتھ تھا البتہ جب عمل Ú©Û’ ہمراہ ہو۔ ÙˆÙŽ خَلِیلٌ یَقوُلُ لَہ ُاَنَا مَعَکَ حَتَّی تَمُوتَ ÙˆÙŽ ہُوَمَا لُہُ دوسرا دوست کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن صرف تا دمِ مرگ۔ یہ اس کا مال ہے۔ انسان کا مال اس Ú©Û’ ہمراہ اس وقت تک ہے جب تک وہ مرا نہیں ہے۔ مرنے Ú©Û’ بعد اسے ایک کفن دیکر Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتا ہے۔ ÙˆÙŽ خَلِیلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَکَ اِلَی بَابِ قَبرِکَ ثُمَّ اُخَلِّیکَ ÙˆÙŽ ھُوَ وَلَدُہُ اور تیسرا دوست اس سے کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں البتہ تا لبِ گور اس Ú©Û’ بعد تم Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دوں گا۔ یہ انسان کا فرزند ہے۔

 

 Ø§Ù†Ø³Ø§Ù† Ú©Ùˆ ان تینوں میں سے کسے دوستی Ú©Û’ Ù„Û“ منتخب کرنا چاہۓ؟ جواب واضح ہے ایسے علم Ú©Ùˆ جو عمل کا باعث ہو۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب انسان حالتِ احتضار میں ہوتا ہے اور عالمِ آخرت Ú©ÛŒ طرف سفر Ú©Û’ Ù„Û“ تیار ہوتا ہے تو مال اولاد اور اس کا عمل اس Ú©Û’ سامنے مجسم ہوتے ہیں۔مرنے والا اولاد سے کہتا ہے کہ میں Ù†Û’ اپنی زندگی تمہارے Ù„Û“ وقف کردی اور اس وقت مشکل میں ہوں تم میرے Ù„Û“ کیا کرسکتے ہو؟ اس وقت اولاد کہتی ہے: ہم قبر تک تمہارے ساتھ آئیں Ú¯Û’Û” پھر وہ مال Ú©ÛŒ طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے: میں Ù†Û’ تجھے جمع کرنے Ú©Û’ Ù„Û“ بیابان اور وسیع Ùˆ عریض صحرا Ø·Û’ Ú©Û“Û” اس وقت میں مشکل میں ہوں تو میرے Ù„Û“ کیا کرسکتا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے: تم اپنا کفن مجھ سے Ù„Û’ سکتے ہو۔ اس منزل پر وہ اپنے عمل Ú©ÛŒ طرف متوجہ ہوتا ہے اور کہتا ہے: تو میرے Ù„Û“ بہت بھاری تھا۔ اس وقت عمل کہتا ہے: میں تمہاری قبر میں تمہارے ساتھ ہوں حشر تک تمہارے ہمراہ ہوں اور جب تم بہشت یا جہنم Ú©ÛŒ طرف جا رہے ہوگے تب بھی تمہارے ساتھ ہونگا۔ جی ہاں ! قرآن کریم Ù†Û’ عمل Ú©Û’ متعلق فرمایا ہے: ÙˆÙŽ قُل ِاعمَلُوا فَسَیَری اللّٰہُ عَمَلَکُم ÙŽÙˆ رَسُولُہُ ÙˆÙŽ المُؤمِنُونَ اور پیغمبر ان سے کہہ دیجۓ کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل Ú©Ùˆ خدا اس کا پیغمبر اور مومنین سب دیکھ رہے ہیں۔ (سورئہ توبہ Û¹ آیت Û±Û°Ûµ) نیز دوسرے مقام پر فرمایا: فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ ÙˆÙŽ Ù…ÙŽÙ† یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرَہُ جو ذرّہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرّہ برابر بھی برائ کرے گا اسے دیکھے گا۔ (سورئہ زلزلۃ Û¹Û¹ آیت Û·Û”Û¸)

 

 Ù…یرے عزیزو! آئو خدا سے دوستی کریں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ Ú©ÛŒ پیروی کریں جو پروردگار Ú©Û’ دوست بنے اور اسی طرح پروردگارِ عالم Ù†Û’ بھی ان سے دوستی Ú©ÛŒ وَاتَّخَذَہُ خَلِیلاً پروردگارِ عالم Ù†Û’ انہیں اپنے دوست Ú©Û’ بطور Ú†Ù† لیا اور ہر ایک Ú©Ùˆ پہچنوایا۔ حضرت ابراہیمں صرف خدا Ú©Û’ Ù„Û“ ہوگۓ اور اس Ú©Û’ سامنے پوری طرح تسلیم ہوگۓ۔ آیۓ اپنے خدا Ú©Û’ ہم نشین ہوتے ہیں اسی طرح جیسے ایک دوست دوسرے دوست Ú©Û’ یا ایک عاشق اپنے معشوق Ú©Û’ ہم نشین ہوتا ہے۔ اپنی روح Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ سپرد کر Ú©Û’ حقیقی ایمان پیدا کریں اس سے عشق کریں نیک عمل انجام دیں اور تقویٰ Ú©Ùˆ اپنا شعار قرار دیں اور اس سے دنیا Ùˆ آخرت Ú©ÛŒ بھلائ طلب کریں۔ اَلیَومُ عَمَلٌ ÙˆÙŽ لَاحِسَابَ ÙˆÙŽ غَداً حِسَابٌ ÙˆÙŽ لاَ عَمَلَ آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں اور Ú©Ù„ حساب کا دن ہو گا عمل کا نہیں۔

 

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8