اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر



 Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û اگر مجھ میں Ú©Ú†Ú¾ ایسی خوبیاں ہیں جن Ú©ÛŒ بنیاد پر میں اس سے بہتر ہوں تب بھی وہ مجھ سے پہلے دنیا میں آنے Ú©ÛŒ وجہ سے ایک باایمان اور صالح زندگی گزارنے میں مجھ سے سبقت رکھتا ہے۔ جب میں پیدا بھی نہ ہوا تھا وہ اس سے قبل ہی ایمان اور عملِ صالح Ú©Û’ ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا: فَہُوَ خَیرٌ مِنِّی (لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے) Û” وَاِن کَانَ اَصغَرُ مِنکَ فَقُل قَد سَبَقتَہُ بِالمَعٰاصِی وَالذُّنُوبِ فَہُوَ خَیرٌ مِنِّی (اوراگر وہ عمر میں تم سے چھوٹا ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ گناہ اور نافرمانی میں میںاس پر سبقت رکھتا ہوں لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے) میں معصوم تو ہوںنہیں نیز اس سے پہلے بالغ اور سنِ شعور Ú©Ùˆ پہنچا ہوںاور اس سے پہلے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ میرے گناہ اس سے زیادہ ہیں Û” وَاِن کَانَ تِربَکَ فَقُل اَنَا عَلَی یَقِینٍ مِن ذَنبِی وَفِی شَکٍّ مِن اَمرِہِ فَمٰا اَدَعُ یَقِینِی لِشَکِّی (اور اگر وہ سن وسال میں تمہارے برابر ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ اپنے گناہوں Ú©Û’ بارے میں تو مجھے یقین ہے لیکن اس Ú©Û’ گناہوں Ú©Û’ متعلق Ø´Ú© رکھتا ہوں۔ پس میں Ø´Ú© Ú©ÛŒ بنیاد پر یقین Ú©Ùˆ نہیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ سکتا) مجھے اپنے گناہوں کا تو علم ہے لیکن اس Ú©Û’ گناہوں Ú©Û’ بارے میں نہیں جانتا۔ مجھے اپنے انجام دیۓ ہوۓ گناہوں Ú©Û’ بارے میں تو یقین ہے لیکن اس Ú©Û’ گناہوں کا علم نہیں اور اس بارے میں Ø´Ú© کا شکار ہوں لہٰذا کیسے اپنے یقین کوترک کرکے Ø´Ú© پر تکیہ کروں۔ یوں اس طرح وہ مجھ سے بہتر ہے Û” وَاِن رَائتَ المُسلِمِینَ یُعَظِّمُونَکَ وَیُوَقِّرُونَکَ وَیُحِبُّونَکَ فَقُل ہٰذا مِن فَضلٍ اُخِذُوبِہِ (او راگر دیکھو کہ مسلمان تمہاری تعظیم Ùˆ توقیر کررہے ہیں او رتم Ú©Ùˆ چاہتے ہیں تو کہو کہ (ان کا یہ طرزِ عمل) ان Ú©ÛŒ حاصل کردہ فضیلت ہے) Û” بعض لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ انہیں بڑا سمجھتے ہوۓ ان Ú©Û’ پیچھے پیچھے Ú†Ù„ رہے ہیں ان Ú©ÛŒ تعظیم کررہے ہیں یا ان Ú©Û’ Ù„Û“ راستہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ رہے ہیں یا ان Ú©Û’ نام Ú©Û’ نعرے بلند کر رہے ہیں تو خود میں Ù†Û’ سماتے اپنے آپ Ú©Ùˆ دوسری ہی دنیا Ú©ÛŒ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں جبکہ اگر حقیقت امر جاننا چاہیں تو حقیقت یہ ہے کہ احترام کرنے والے یہ افراد ان پر برتری رکھتے ہیں کیونکہ ان لوگوں پر ان کا احترام کرنا واجب نہ تھا (یہ تو ان لوگوں Ú©Û’ عظمت ہے کہ انہوں Ù†Û’ ان کا احترام کیا) حتیٰ بعض مواقع پر تو یہ لوگ اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کا احترام کیا جاتا۔

 

 ÛÙ…یں امیر المومنین حضرت علی Úº سے عاجزی اور انکساری کا درس لینا چاہۓ جبکہ آپ مقامِ عصمت پر فائز تھے اور اگر اس سے بھی بلند کوئی مقام فرض کیا جا سکتا ہے تو آپ اس پر فائز ہیں لیکن اسکے باوجود آپ خدا اور بندگانِ خدا Ú©Û’ سامنے تواضع اور انکساری Ú©Û’ ساتھ پیش آتے تھے اور جب بھی کوئی آپ Ú©ÛŒ تعریف کرتا تھا خوف خدا کا اظہار کرتے ہوۓ فرماتے تھے:اَللّٰہُمَّ اجعَلنِی خَیراً مِمّٰا یَظُنُّونَ وَاغفِر Ù„ÛŒ مَالاٰیَعلَمُونَ پرودگار ا ! یہ جیسا مجھ Ú©Ùˆ سمجھتے ہیں اس سے بہتر قرار دے او رمیری جن لغزشوں کوتو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتے ان Ú©Ùˆ بخش دے۔ اور حضرت امام سجادں دعاۓ مکارم الاخلاق میں ہمیں تعلیم دیتے ہیں (میری نصیحت ہے کہ اس دعا Ú©Ùˆ روزانہ Ù¾Ú‘Ú¾Û“ کیونکہ یہ دعا ہمارے سامنے بہترین انداز میںاخلاقی اور تربیتی راہ Ùˆ روش Ú©ÛŒ نشاہدہی کرتی ہے۔ اور کوئی اخلاقی مسئلہ ایسا نہیں جس کا ذکر اس دعا میں نہ کیا گیا ہو۔ لیکن افسوس ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم امام سجاد Ú©ÛŒ معرفت نہیں رکھتے نہ صرف امام سجاد بلکہ تمام ہی ائمہ Ú©Ùˆ ہم Ù†Û’ صرف عزاداری تک محدود کر Ú©Û’ رکھ دیاہے ایک مدرسۂ فکر اور وسیع افق Ú©ÛŒ حامل ہستیوں Ú©Û’ طور پر ان سے استفادہ نہیں کرتے۔)

 

 Ø¨ÛØ± حال امام سجاد اس دعا Ú©Û’ ایک حصے میں فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ لَاتَرفَعنِی فِی النّٰاسِ دَرَجَۃً اِلاّٰ حَطَطتَنِی عِندَ نَفسِی مِثلَہَا وَلاٰ تُحدِث Ù„ÛŒ عِزاً ظٰاہِراً اِلاّٰ اَحدَثتَ Ù„ÛŒ ذِلَّۃً بَاطِنَۃً عِندَ نَفسِی بِقَدرِھٰا بار الٰہا ! لوگوں Ú©Û’ درمیان میرے کسی درجے میں اس وقت تک اضافہ نہ فرمانا جب تک اسی مقدار میں مجھے اپنی نگاہوں میں حقیر نہ کر دے اور کوئی بھی ظاہری عزت Ùˆ شوکت مجھے نصیب نہ فرما جب تک اسی مقدار میں مجھے خود میری نظروں میں ذلیل نہ کر دے۔ لوگوں سے روابط Ùˆ تعلقات Ú©Û’ بارے میں امام سجاد Ù†Û’ اپنے صحابی زہری Ú©Ùˆ جو نصیحتیں فرمائں ہم ایک مرتبہ پھر ان Ú©ÛŒ طرف آتے ہیں۔ امام Ù†Û’ فرمایا: ÙˆÙŽ اِن رَأیتَ مِنہُم جَفٰائً اَو اِنقِبَاضاً عَنکَ فَقُل ہٰذا الذَّنبُ اَحدَثتُہُ (اور اگر دیکھو کہ لوگ تم پر ظلم کر رہے ہیں تم سے بے توجہی برت رہے ہیں تو کہو کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔) پس اگر دیکھو کہ لوگ تمہاری تعظیم Ùˆ تکریم نہیں کرتے تم سے محبت سے پیش نہیں آتے تو اسکا قصور وار بھی خود اپنے آپ ہی Ú©Ùˆ سمجھو یعنی لوگوں Ú©Ùˆ الزام نہ دو انہیں برا نہ کہو بلکہ خود Ú©Ùˆ موردِ الزام ٹھہرائو کہ تم کسی گناہ Ú©Û’ مرتکب ہوۓ ہو یا لوگوں Ú©Û’ حق میں تم Ù†Û’ کوئی کوتاہی Ú©ÛŒ ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے وہ تم سے دور ہو Ú¯Û“ ہیں اور یہ خود تمہارے گناہوں Ú©ÛŒ سزا ہے۔ فَاِنَّکَ اِن فَعَلتَ ذٰالِکَ سَہَّلَ اللّٰہُ عَلَیکَ عَیشَکَ وَکَثَّرَ اَصدِقَائُکَ وَقَلَّ اَعدَائُ Ú©ÙŽ (اگر تم Ù†Û’ اس طرح عمل کیا تو پروردگار عالم تمہاری زندگی Ú©Ùˆ آسان کر دے گا تمہارے دوستوں میں اضافہ اور تمہارے دشمنوں میں Ú©Ù…ÛŒ کر دے گا) Û” یعنی اگر اس فکر اور ذہنیت Ú©Û’ ساتھ لوگوں Ú©Û’ درمیان زندگی بسر کرو Ú¯Û’ تو نہایت عمدہ نتائج دیکھو Ú¯Û’Û” یہاں ہم لوگوں Ú©Û’ ساتھ پیش آنے اور ان Ú©Û’ ساتھ اختیار Ú©Û“ جانے والے طرزِ عمل سے متعلق ائمہ علیہم السلام Ú©ÛŒ ہدایات Ùˆ رہنمائوں Ú©Û’ صرف ایک گوشے Ú©Ùˆ سامنے لاۓ ہیں۔

 

دوستی کی حدود

اس حصے میں ہم دوستی اور اس کی حدود کے متعلق گفتگو کرنے جا رہے ہیں اور اس گفتگو کا آغاز حضرت امام جعفر صادق ں کے ایک خوبصورت کلام سے کریں گے: لَاتَکُونُ الصِّدَاقَةُ اِلَّا بِحُدُودِ ہَا فَمَن کَانَت فِیہِ ہٰذِہِ الحُدُودُ اَو شَییٌٔ مِنہَا وَ اِلَّا فَلَا تَنسِبہُ اِلیٰ شَییئٍ مِنَ الصِّدَاقَةِ بغیر حدود کے دوستی نہیں ہوتی۔ پس جس کسی میں یہ حدود یا ان کا کوئی حصہ پایا جاۓ وہ دوستی کے لائق ہے او راگر یہ حدود یا ان میں سے کچھ اس میں نہ پائ جائں تو ہرگز اسے اپنا دوست مت سمجھنا۔

 ÙÙŽØ§ÙŽÙˆÙ‘َلُہَا: اَن تَکُونَ سَرِیرَتُہُ ÙˆÙŽ عَلاَنِیَّتُہُ Ù„ÙŽÚ©ÙŽ وَاحِدَةٌ پہلی شرط یہ ہے کہ: تمہارے Ù„Û“ اس کا ظاہر Ùˆ باطن ایک ہو Û” ایسا نہ ہو کہ لوگوں Ú©Û’ سامنے تو تمہیں Ú¯Ù„Û’ لگاۓ لیکن پیٹھ پیچھے سے خنجر گھونپے۔ بلکہ سامنے اور پیٹھ پیچھے دونوں مواقع پر تمہارے Ù„Û“ اس Ú©ÛŒ محبت ا ور اس کا خلوص یکساں ہونا چاہۓ۔

 Ø§Ù„ثانیۃ: اَن یَرَی زَینَکَ زَینَہُ ÙˆÙŽ شَینَکَ شَینَہُ دوسری شرط یہ ہے کہ: تمہاری اچھائ Ú©Ùˆ اپنی اچھائ سمجھے اور تمہاری برائ Ú©Ùˆ اپنی برائ۔ یعنی تمہاری پسندیدہ صفات اور فضائل Ú©Ùˆ اپنے Ù„Û“ خوبی سمجھے اور اگر تمہارے اندر کوئی برائ دیکھے تو اسے تکلیف ہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next