اسلام، دوستی اور مهربانی کا مظهر



 

 Ø§Ú¯Ø± Ø·Û’ ہوکہ دوست او ردوستی Ú©ÛŒ دنیا میں تحقیق Ú©ÛŒ جاۓ تو تمہیں کوئی ایسا دوست نہ ملے گا جس Ú©ÛŒ سرزنش نکتہ چینی اور باز پرس ممکن نہ ہو۔ ہر انسان سے لغزش انحراف اور بے فائدہ عمل سرزد ہو سکتے ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔اسی بنا پر امام علی ÚºÙ†Û’ فرمایا ہے: Ù…ÙŽÙ† نَاقَشَ الاِخوَانَ قَلَّ صَدِیقُہُ جو بھی اپنے دوستوں پر نکتہ چینی کرتا ہے اس Ú©Û’ دوست Ú©Ù… ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں نکتہ چینی ایک ایسا عمل ہے جو دوستوں Ú©ÛŒ تعداد Ú©Ù… کردیتا ہے Û”

 

دوست بڑھانے کے طریقے

کیا چیزیں ہیں جو دوستوں میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں؟ یہاں ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل میں بھی اہلِ بیت ہمارے معلم ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری فرماتے ہیں: مَن کَانَ الوَرَعُ سَجِیَّتُہُ وَالکَرَمُ طَبِیعتُہُ وَالحِلمُ خُلَّتُہُ کَثُرَ صَدِیقُہُ وَالثَّنٰائُ عَلَیہِ وَانتَصَرَ مِن اَعدَائِہِ بِحُسنِ الثَّنٰائِ عَلَیہِ پرہیز گاری جس کی عادت بن جاۓ کرم وبخشش جس کی سرشت ہو اور حلم و بردباری جس کی شان ہو اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیںاور اس کی تعریف کثرت سے کی جاتی ہے اوراسی تعریف کی مدد سے وہ اپنے دشمنوں پر غالب ہوجاتا ہے۔ یعنی ان صفات اورخصوصیات کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل جیت لیتا ہے اس کے دوست زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس کی محبوبیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنی اس صلاحیت کے ذریعے دشمنوں پر کامیابی حاصل کرتا ہے او راس کے دشمن بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امام زین العابدین ں نے زُہری کو جو نصیحتیں کیں ان میں ہے کہ: ایک روز آپ نے زہری کو دیکھا کہ وہ حاسدوں اور ان لوگوں کی وجہ سے غمگین اور رنجیدہ خاطر ہیں جن پر انہوں نے احسانات کۓ تھے (یاد رہے کہ زہری امام سجادںکے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے حضرت سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں) امام نے زہری سے غم و اندوہ کا سبب دریافت کیا تو زہری نے عرض کیا: میں لوگوں کے ساتھ نیکی کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ برائ کرتے ہیں ۔ ایسے افراد کے درمیان زندگی بسر کررہاہوں کہ جو ان چیزوں کی وجہ سے مجھ سے حسد کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے مجھے عطا کی ہیں اورمیرے لۓ بہت سی انفرادی اور اجتماعی مشکلات پیداکرتے ہیں۔ (بالکل ویسی ہی مشکلات جیسی حاسداور احسان فراموش بد خواہ افراد کی طرف سے بہت سے انسانوں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔)

 

 Ø§Ù…ام سجادں Ù†Û’ ان سے فرمایا: اَمَّا عَلَیکَ اَن تَجعَلَ المُسلِمِینَ مِنکَ بِمَنزِلَةِ اَہلِ بَیتِکَ تمہیں چاہۓ کہ تم تمام مسلمانوں Ú©Ùˆ اپنے اہلِ خانہ Ú©ÛŒ طرح سمجھو۔ یعنی اگر مشکلات سے نجات چاہتے ہو تو اپنی فکر ونظر کوتبدیل کرو او راسلامی سماج Ú©Û’ ہر فرد کواپنے افراد خانہ Ú©ÛŒ طرح سمجھو اور دیکھو کہ انسان اپنے گھر Ú©Û’ چھوٹوں اور بڑوں Ú©Û’ ساتھ کس طرح پیش آتا ہے؟ پس تمام مسلمانوں Ú©Û’ ساتھ ایسے ہی پیش آؤ Û” پروردگارِعالم Ù†Û’ ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم مسلمانوں Ú©Û’ ساتھ مہر ومحبت سے پیش آئں اور ان سے برادرانہ سلوک کریں Û” ارشاد الٰہی ہے: اِنَّمٰا المُؤمِنُونَ اِخوَةٌ (بلاشبہ تمام مومنین آپس میں ایک دوسرے Ú©Û’ بھائ ہیں) یعنی پروردگارِ عالم Ù†Û’ ان Ú©Û’ درمیان قائم ایمانی رشتے Ú©Ùˆ سب سے مضبوط رشتہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم بھی تمام مسلمانوں Ú©Ùˆ ایک کنبے Ú©Û’ افراد شمار کرو جس میں سب مل جل کر رہتے ہیں Û” فَتَجعَلَ کَبِیرَ ہُم بِمَنزِلَةِوَالِدِکَ (ان Ú©Û’ بڑوں Ú©Ùˆ اپنے والد کا درجہ دو) اور ان کا اسی طرح احترام کرو جیسے اپنے والد کا احترام کرتے ہو۔ وَتَجعَلُ صَغِیرَہُم بِمَنزِلَةِ وَلَدَکَ (اور ان Ú©Û’ چھوٹوں Ú©Ùˆ اپنے بچوں Ú©ÛŒ طرح سمجھو) ۔لہٰذا ان Ú©Û’ ساتھ اسی طرح شفقت اور محبت سے پیش آؤ جیسے اپنے بچوں سے پیش آتے ہو۔ وَتَجعَل تِربَکَ بِمَنزِلَةِ اَخِیکَ فَاَیُّ ہٰؤُلاٰئِ تُحِبُّ اَن تُظلِمُ (اور اپنے ہم سن وسال افراد Ú©Ùˆ اپنے بھائوں Ú©ÛŒ طرح سمجھو۔جب صورتحال یہ ہو تو تم خود ہی بتائو کہ ان میں سے کس پر ظلم Ùˆ زیادتی کرنا پسند کرو Ú¯Û’ØŸ) Û”

 

 Ú©ÛŒØ§ عقلِ سلیم رکھنے والے کسی انسان Ú©Ùˆ یہ بات پسند ہو Ú¯ÛŒ کہ وہ اپنے والد اپنے بچوں یا اپنے بھائوں پر ظلم کرے ØŸ واضح ہے کہ جب مسلمانوں Ú©Ùˆ اس نگاہ سے دیکھوگے او ران Ú©Û’ متعلق اس طرح کا شعور Ùˆ احساس رکھوگے تو لازماً ان Ú©Û’ ساتھ اس طرح پیش آئو Ú¯Û’ کہ ان پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی نہ ہو کیونکہ انسان ہرگز نہیں چاہتا کہ خود سے وابستہ افراد میں سے کسی پر ظلم کرے۔وَاِن عَرَضَ Ù„ÙŽÚ©ÙŽ اِبلِیسُ (لَعنَةُ اللّٰہِ) اَنَّ Ù„ÙŽÚ©ÙŽ فَضلاً عَلَی اَحَدٍ مِن اَہلِ القِبلَةِ (اور اگر شیطان (لعنتہ اللہ) تمہارے سامنے یوں ظاہر کرے کہ تم مسلمانوں میں سے کسی سے برتر اور افضل ہو) ۔ممکن ہے کہ شیطان تمہارے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرے کہ تمہیں دوسروں پر برتری حاصل ہے۔ صرف تم نیک کام انجام دیتے ہو دوسروں Ú©ÛŒ خدمت کرتے ہو اورسماج Ú©ÛŒ اصلاح Ú©Û’ Ù„Û“ کوشاں ہو لہٰذا سب پر لازم ہے کہ تمہاری اطاعت کریں اور تمہارے سامنے سرِ تعظیم خم کریں۔ ہاں بعض لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے Û” جتنی ان Ú©ÛŒ شہرت بڑھتی ہے اتنا ہی وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ وہ لوگوں پر حق رکھتے ہیں جبکہ لوگوں Ú©Ùˆ ان پر کوئی حق حاصل نہیں۔ لہٰذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان Ú©ÛŒ خدمت کریں اوروہ کسی Ú©ÛŒ خدمت نہ کریں، وہ چاہتے ہیں کہ ان Ú©Û’ ساتھ نیکی اور احسان ہو لیکن وہ کسی Ú©Û’ ساتھ نیکی واحسان نہ کریں۔ پس اگر شیطان تمہارے دل میں یہ خیال پیدا کر دے کہ تمہیں کسی پر فوقیت حاصل ہے تو : فَاِن کَانَ اَکبَرُ مِنکَ فَقُل قَد سَبَقنِی بِالاِیمٰانِ وَالعَمَلِ الصَّالِحِ (اگر وہ شخص تم سے عمر میں بڑا ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ وہ ایمان او رعملِ صالح میں مجھ سے سابق ہے) ۔یعنی شیطان Ú©Û’ اس فریب اور وسوسے Ú©Û’ متعلق خود اپنے آپ سے کلام کرو اور اس شخص Ú©Û’ بارے میں معلومات کرو اگر وہ تم سے عمر میں بڑا ہو تو اپنے آپ Ú©Ùˆ سمجھائو کہ اسے مجھ پر فضیلت حاصل ہے۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next