نبوت عامہ



ادھر اس کی ذات مقدس کو اس سے کھیں بلند وبالا سمجھتا ھے کہ خود جو سراپا جھل و خطا اور هوی ٰ وہوس ھے، اس حس ومحسوس، وھم وموہوم اور عقل ومعقول کے خالق کے ساتھ اپنی مشکلات کے حل کے لئے سوال و جواب کا رابطہ برقرار کرے، جس کی عظمت ِجمال وکمال لامتناھی اور ذات تمام نقائص وقبائح سے سبوح وقدوس ھے ۔

 Ø§Ø³ مسئلے Ú©Û’ حل Ú©Û’ لئے اسے ایک ایسے واسطے Ú©ÛŒ ضرورت Ú¾Û’ جو خلق Ú©Û’ ساتھ رابطے Ú©Û’ لئے ضروری هونے Ú©Û’ اعتبار سے انسانی صورت میں هو اور اور قانون تناسب فاعل اور قابل Ú©Û’ اعتبار سے، جو خالق Ú©Û’ ساتھ رابطے کا لازمہ Ú¾Û’ØŒ خطا سے پاک ومنزہ عقل، هویٰ وہوس سے دور نفس اور الٰھی سیرت سے مزین هو، تاکہ اس میں یہ صلاحیت آجائے کہ نور وحی سے منور هو سکے اور ابواب ِمعارف ِالھیہ Ú©Ùˆ انسانوں Ú©Û’ سامنے پیش کر سکے،اور انھیں عقل Ú©ÛŒ معرفتِ حق سبحانہ سے تعطیل Ú©ÛŒ  تفریط اور خدا Ú©Ùˆ خلق سے تشبیہ جیسے افراط[6] سے نجات دلاتے هوئے دین ِقیم Ú©ÛŒ صراط مستقیم Ú©ÛŒ جانب ھدایت کرے :

<وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعَوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ>[7]

سوم:انسان اپنی قدرت ِفکر Ú©Û’ ذریعے قوانین واسرارِ خلقت Ú©Ùˆ کشف کرنے اور ان Ú©Ùˆ اپنی خدمت پر مامور  کرنے Ú©ÛŒ صلاحیت رکھتا ھے،اس Ú©Û’ ساتھ ساتھ ایسی هوا Ùˆ هوس اور شہوت وغضب کا مالک Ú¾Û’ جو انسانی طبیعت Ú©Û’ خاصہ Ú©Û’ مطابق حد Ø´Ú©Ù†ÛŒ اور افزون طلبی پر کمر بستہ رھنے Ú©ÛŒ وجہ سے قناعت پذیر نھیں ھے۔ان خصو صیات Ú©ÛŒ بنا پر زمین میں نیکی Ùˆ بُرائی، انسان Ú©ÛŒ نیکی وبُرائی سے وابستہ Ú¾Û’ <ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی  الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ>[8] بلکہ <وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ جَمِیْعاً مِِّنْہُ إِنَّ فِی ذٰلِکَ َلآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ>[9]Ú©Û’ مطابق تو دوسرے سیاروں میں نیکی Ùˆ بُرائی بھی انسان Ú©ÛŒ نیکی Ùˆ بُرائی سے وابستہ Ú¾Û’ اور اس انسان Ú©ÛŒ اصلاح فقط ھدایت پروردگار عالم سے ممکن Ú¾Û’ØŒ جو اعتدال فکری Ú©Ùˆ عقائد حقہ اور اعتدال روحی Ú©Ùˆ اخلاق فاضلہ اوراعمال صالحہ Ú©Û’ ذریعے مھیا کرتی Ú¾Û’Û”

چھارم:مختلف ضروریات کی وجہ سے انسان کی زندگی معاشرے سے وابستہ ھے اور یہ وابستگی مختلف اورمتقابل حقوق کا سبب بنتی ھے۔ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم اور ادا کئے بغیر اجتماعی زندگی بقا کے قابل نھیں ھے اور یہ حقوق اس وقت تک حاصل نھیں هو سکتے جب تک قانون ساز اور ان قوانین کا اجراء کرنے والا ھر قسم کے نقص وخطا سے محفوظ اور ذاتی مصلحتوں اور حق وانصاف کے سلسلے میں ،ھر قسم کے انحراف سے پاک ومنزہ نہ هو اور یہ کام خدائی اصول و قوانین اورالٰھی نمائندوں کے بغیر نا ممکن ھے:

<لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاٴَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ>[10]

اب جب کہ ثابت هوگیا کہ مبدا ومعاد اورمقصدِ تخلیق کی جانب انسان کی ھدایت ضروری ھے اور یہ بات بھی واضح هوگئی کہ فکری وعملی اعتبار سے انسان کی کمال تک رسائی، خواھشات نفسانی کاتعادل اورانفرادی واجتماعی حقوق کاحصول ایک لازمی امر ھے، یہ جاننا نھایت ضروری ھے کہ ان مقاصد کو وحی ونبوت کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے عملی جامہ پھنانا ممکن نھیں ۔ خطا سے آلودہ ذھن اور هویٰ وہوس کی قید میں جکڑے هوئے ھاتھوں کے ذریعے یہ اھم مقاصد حاصل نھیں هو سکتے اورصرف تفکر وتدبر کے چراغوں سے انسانی فطرت میں موجود، مبھم نقاط روشن وواضح نھیں هو سکتے۔

انسان جب اپنی مافوق العادہ استعداد، صلاحیت اور افکار کے ذریعے اسرارِ جھان کی تلاش و جستجو میں نکلا تو ناگھاں اس نے دیکھا کہ بدن کی عناصرِ اربعہ سے ترکیب اور چار مخالف طبیعتوں کو مختلف امراض و علل کی بنیاد سمجھنے کے بارے میں اس کا تصور غلط ھے اور خلقت کے بارے میں جو تانا بانا اس نے مٹی، پانی، هوا، آگ اور ناقابل رسوخ وغیر پیوستہ آسمانی سیاروں سے بن رکھا تھا سب کھل کر رہ گیا اور یہ بات واضح و ثابت هوگئی کہ وہ ترکیب ِبدن جیسی خود سے نزدیک ترین چیز اور اس کی صحت و امراض کے علل و اسباب سے ناواقف تھا اور جو کچھ نزدیک ترین آسمانی سیارے یعنی چاند کے بارے میں سمجھتا تھا سب غلط نکلا۔آیا اس انسان کا یہ چراغِ فکر، معرفت مبدا و معاد اور اسباب ِسعادت و شقاوت کی جانب اس کی ھدایت و راھنمائی کر سکتا ھے؟!

انسانی علم و دانش جو ایک ذرّے کے دل میں چھپے هوئے اسرار کے ادراک سے عاجز ھے، انسان و جھان کے آغاز و انجام کے لئے ھادی، معرفت مبدا و معاد کے لئے مشکل کشاء اور اس کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے رھنما کیسے ثابت هو سکتا ھے ؟!

((فبعث فیھم رسلہ و واتر إلیھم اٴَنبیائہ لیستاٴدوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول و یروھم آیات المقدرة)) [11]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next