نبوت عامہ



مذکورہ بالا دلیل ،فلاسفہ کی برھان نبوت پر واضح فوقیت رکھتی ھے ۔کیونکہ اس دلیل میں انسان کی تمام مصلحتوں اور منافع کو عالم وجود کے تمام مراحل میں خاص توجہ دی گئی ھے جب کہ فلاسفہ کی برھان نبوت میں فقط انسان کے مدنی الطبع هونے اور اجتماعی معاملات اور سماجی روابط میں عدل کو مد نظر رکھا گیا ھے ۔

مخلوق کے ساتھ مشترک اور ان سے ممتاز هونے کے اعتبار سے انبیاء علیھم السلام کے استثنائی وجود اور جن چیزوں میں اشتراک اور جن کی بنیاد پر امتیاز ھے، ان کی طرف جملہ ((غیر مشارکین للناس،علی مشارکتھم لھم فی الخلق والترکیب، فی شیء من احوالھم))میں اشارہ کیا گیاھے۔

اور جملہ ((صفوة من خلقہ))میں باقی  مخلوق سے انبیاء Ú©Û’ برگزیدہ هونے Ú©ÛŒ طرف توجہ دلائی گئی Ú¾Û’ کہ اس برگزیدہ خلقت Ú©Û’ ذریعے خالق ومخلوق Ú©Û’ درمیان مقام وساطت پر فائز هونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ عالی Ùˆ دانی Ú©Û’ درمیان رابطہ بر قرار کر سکے۔

اور جملہ ((یعبرون عنہ))میں موجود،” خدا سے تعبیر“ کے لفظ کی لطافت، پیغمبر کے مقام ومنزلت کو روشن کرتی ھے کہ وہ زبان کی مانند ،جو مافی الضمیر کی بیان گر ھے، مقاصدِ خداوند ِ متعال کو مخلوق تک پھنچاتاھے اور اس مقام ومنزلت کے لئے تقد س وعصمت پیغمبر کا هونا ضروری ھے۔

جملہ ((یکون معہ علم یدل علی صدق مقالتہ وجواز عدالتہ)) میں اثباتِ نبوت Ú©Û’ لئے ضرورت ِ معجزہ Ú©ÛŒ دلیل Ú©Ùˆ بیان فرمایا اور چونکہ منشاء نبوت حکیم علی الاطلاق Ú©ÛŒ حکمت Ú¾Û’ اور اس کا ثمر بھی حکمت Ú¾Û’<قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمْةِ>[15]ØŒ<اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِِِّکَ بِالْحِکْمَةِ>[16] انبیاء Ú©ÛŒ حکمتِ نظری اور حکمت عملی میں برتری Ú©ÛŒ جانب توجہ دلائی گئی Ú¾Û’ کہ اس حکمت نظری Ú©ÛŒ بنیاد فکر اور یہ حکمت عملی  ((یعبرون عنہ)) اور((Ùˆ من عند الحکیم العلیم)) Ú©Û’ تقاضے Ú©Û’ مطابق نور کا ایسا چراغ Ú¾Û’ جو کسی انسانی تعلیم Ùˆ تربیت Ú©Û’ بغیر نور السماوات والاٴرض سے مرتبط هونے Ú©ÛŒ وجہ سے منور اور روشن Ú¾Û’<یَکاَدُ زَیْتُہَا یُضِیْءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ>[17]

اوراس کے ساتھ کہ یہ جملہ ارشاد فرمایا ((حکماء موٴدبین بالحکمة))، تھوڑے فاصلے کے بعد ھی یہ فرمایا((موٴیدین من عند الحکیم العلیم بالحکمة))۔ پھلے جملے میں حکمت کے ذریعے مودّب اورمہذب اور دوسرے جملے میں حکمت کے ذریعے تائید کا ذکر ھے، اور حکمتِ انبیاء اور مکتبِ وحی کا حدوث و بقاء کے اعتبار سے بارگاہ حکیم و علیم سے رابطہ، فکرِ انسانی پر اس حکمت کی برتری کو اس حد تک روشن کر دیتا ھے جو ما عند اللہ اور ما عند الناس کے درمیان کی حد ھے۔اور جملہ((وکان ذلک الصانع حکیما)) اور انبیاء کی ((حکماء موٴدبین بالحکمة مبعوثین بھا)) سے توصیف اس مطلب کی بیان گر ھے کہ نبوت کی علت فاعلی اور علت غائی، حکمت ھے، اور مبدا ٴ و منتھیٰ کے درمیان حد وسط بھی حکمت ھی ھے<یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی اْلاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِخ هو الَّذِیْ بَعَثَ فِی اْلاٴُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَ إِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ>[18]

کلام ِامام  (ع) Ú©Û’ اشارات Ùˆ لطیف نکات میںدوسرے بیش قیمت مباحث موجود ھیں، لیکن اختصار Ú©Ùˆ مدنظر رکھتے هوئے ان Ú©Û’ ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں۔

امام ھشتم حضرت علی بن موسی الرضا   (ع) Ù†Û’ نبوت Ú©ÛŒ بحث میں ارشاد فرمایا:((فإن قال: فلم وجب علیھم معرفة الرسل Ùˆ الإقرار بھم والإذعان Ù„Ú¾Ù… بالطاعة؟ قیل: لاٴنہ لما لم یکن فی خلقھم Ùˆ قولھم Ùˆ قواھم ما یکملون لمصالحھم وکان الصانع متعالیاً عن اٴن یری، وکان ضعفھم Ùˆ عجزھم عن إدراکہ ظاھراً لم یکن بدّ من رسول بینہ Ùˆ بینھم معصوم یوٴدّی إلیھم اٴمرہ Ùˆ نھیہ Ùˆ اٴدبہ Ùˆ یقفھم علی ما یکون بہ إحراز منافعھم Ùˆ دفع مضارھم إذ لم یکن فی خلقھم ما یعرفون بہ ما یحتاجون إلیہ من منافعھم Ùˆ مضارھم)) [19]

 


[1] علل الشرایع ،ج۱ ،ص۵، باب ۶، حدیث ۱۔(عبد اللہ بن سنان نے کھا میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا ملائکہ افضل ھیں یا بنی نوع آدم؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next