نبوت عامہ



۴۔اگر پیغمبر خطا و لغزش سے محفوظ و معصوم نہ هو توامت کو، تبلیغ ِوحی میں اس کی سچائی و صحت گفتار کایقین حاصل نھیں هوسکتا اور اگر گناہ سے محفوظ و معصوم نہ هوا تو گناہ کی آلودگی کے باعث لوگوں کی نظروں سے گر جائے گا اور جس طرح عالمِ بے عمل و واعظ غیر متّعظ کی گفتار کاانسانی نفوس پر کوئی اثر نھیں هوتا، اسی طرح غرض بعثت بھی حاصل نہ هوگی۔

۵۔خطا وگناہ کا سبب عقل وارادے Ú©ÛŒ کمزوری Ú¾Û’Û” وحی سے متصل عقلِ کامل جسے حق الیقین حاصل Ú¾Û’ اور تمام  اشیاء Ú©ÛŒ حقیقت Ú©Ùˆ کما حقہ دیکھ رھا Ú¾Û’ ،جس کا ارادہ خدا Ú©Û’ ارادے Ú©Û’ سوا کسی اور Ú©Û’ ارادے Ú©Ùˆ قبول نھیںکرتا۔ اس پیغمبر Ú©Û’ وجود میں گناہ وخطا Ú©ÛŒ ذرہ برابر گنجائش باقی نھیں رہتی۔

۲۔معجزہ :

کوئی بھی دعویٰ قبول کرنے کے لئے دلیل ضروری ھے اور دلیل ومدعا کے درمیان اس طرح کا رابطہ برقرار هونا چاہئے کہ دعوے کی حقانیت کا یقین، دلیل سے انفکاک وجدائی کے قابل نہ هو۔

پیغمبر کا مدعا خداوندِمتعال کی طرف سے سفارتِ الٰھی ھے اور یہ مدعا خدا کی جانب سے ان کی گفتار کی تصدیق کے بغیر ثابت نھیں هوسکتا اور معجزہ پیغمبر کے دعوے کے لئے خداوندِ متعال کی عملی تصدیق ھے، کیونکہ معجزہ در حقیقت وہ شے ھے جو بغیر کسی مادی واسطے کی وساطت کے، اسباب ومسببّات پر محیط ارادے، سبب کی مسبب میں تاثیر اور مسبب میں سبب سے اثر پذیری کی وجہ سے وقوع پذیر هوتاھے۔

جو شخص نبوت کا دعوی کرے اور عقلی اعتبار سے اس کی تصدیق ممکن هو اور اس دعوے کے ساتھ ما فوق الفطرت کام انجام دے تو یہ اس کی حقانیت کے قطعی گواہ ھیں، کیونکہ اگر حق پر نہ هو تو اس کے ذریعے ما فوق الفطرت کاموں کا انجام پانا، جھوٹے کی تصدیق اور مخلوق کی گمراھی کا سبب ھے،جب کہ بارگاہ اقدس ِربوبیت اس امر سے پاک ومنزہ ھے۔

نبوت عامہ کی بحث کو ھم دو حدیثوں کے ذکر کے ساتھ ختم کرتے ھیں :

((إنا لما اثبتنا اٴن لنا خالقا صانعا متعالیا عنا وعن جمیع ما خلق وکان ذلک الصانع حکیماً متعالیاً لم یجز اٴن یشاھدہ خلقہ و لا یلامسوہ فیباشرھم و یباشروہ، و یحاجھم و یحاجوہ، ثبت اٴن لہ سفراء فی خلقہ، یعبرون عنہ إلی خلقہ و عبادہ، و یدلونھم علی مصالحھم و منافعھم و ما بہ بقاوٴھم و فی ترکہ فنائھم، فثبت الآمرون و الناہون عن الحکیم العلیم فی خلقہ و المعبرون عنہ جل و عزّ، و ھم الاٴنبیاء علیھم السلام و صفوتہ من خلقہ، حکماء موٴدبین بالحکمة، مبعوثین بھا، غیر مشارکین للناس، علی مشارکتھم لھم فی الخلق و الترکیب، فی شیء من اٴحوالھم، موٴیدین من عند الحکیم العلیم بالحکمة، ثم ثبت ذلک فی کل دھر و زمان مما اٴتت بہ الرسل و الاٴنبیاء من الدلائل و البراھین، لکیلا تخلو اٴرض اللّٰہ من حجة یکون معہ علم یدل علی صدق مقالتہ و جواز عدالتہ ))[14]

امام جعفر صادق (ع) نے نبوت کے بارے میں جن مباحث کواس حدیث میں پیش کیا ھے، ان میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

بعثت انبیاء Ú©ÛŒ ضرورت سے متعلق دلیل Ú©Ùˆ جملہ ((وکان ذلک الصانع حکیما متعالیا) سے ((یدلّونھم))تک ذکر کیا گیا ھے،کیونکہ انسان سے سرزد هونے والی ھر حرکت وسکون اور فعل وترک دنیا وآخرت Ú©Û’ اعتبار سے یا تو اس Ú©Û’ لئے نفع بخش Ú¾Û’ یا نقصان دہ اور یا نہ تو نافع Ú¾Û’ اور نہ Ú¾ÛŒ مضر۔ بھر حال انسان Ú©Û’ لئے اپنی دنیا وآخرت Ú©Û’ نفع ونقصان اور مصلحت ومفسدہ Ú©Ùˆ جاننا ضروری Ú¾Û’ اور ان امور Ú©ÛŒ معرفت انسان Ú©Ùˆ فقط اور فقط اسی ذات Ú©ÛŒ جانب سے ودیعت هوسکتی Ú¾Û’ جو انسان Ú©ÛŒ دنیوی اور اُخروی زندگی پر اثر انداز هونے والی تمام حرکات Ùˆ سکنات اورفعل Ùˆ ترک پر محیط هو۔وہ ذات جو دنیا ،آخرت اور انسان Ú©ÛŒ خالق Ú¾Û’Û” اور خالق Ú©ÛŒ حکمت کا تقاضا یھی Ú¾Û’ کہ وہ  ھدایت کا انتظام کرے۔ اب چونکہ اس Ú©ÛŒ دلالت وھدایت اس Ú©Û’ عالی مرتبت هونے Ú©ÛŒ وجہ سے کسی عادی سبب Ú©ÛŒ وساطت Ú©Û’ بغیر ممکن نھیں Ú¾Û’ لہٰذا الٰھی نمائندوں کا هونا ضروری Ú¾Û’ کہ ((یدلونھم علی مصالحھم ومنا فعھم ومابہ بقاوٴھم وفی ترکہ فنائھم))



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next