هدايت وگمراهی کا مسئله



”ہداہ للطریق والی الطریق، ۔۔۔۔ اذا دلّہ علی الطریق، وہدیتہ الطریق والبیت ہدایة ای عرفتہ۔[4]

  اس Ú©ÛŒ راستہ Ú©ÛŒ طرف ہدایت Ú©ÛŒ جبکہ وہ راستہ Ú©Ùˆ جانتا تھا، یا میں Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ راستہ Ú©ÛŒ ہدایت Ú©ÛŒ یعنی اس Ú©Ùˆ جانتا  تھا )

 ÛØ¯Ø§ÛŒØª گمراھی Ú©ÛŒ ضد Ú¾Û’ ،ہدایت Ú©Û’ معنی راہ دکھانا اور دلالت Ú©Û’ ھیں۔[5]

یا جیسا کہ کھا جاتا Ú¾Û’ : ”ہد یت Ù„Ú© فی  معنی بینت Ù„Ú© “۔[6]

(میں نے تمھارے اس معنی میں ہدایت کی جس کو میں نے بیان کیا )

اسی طرح سے خدا وند عالم کایہ فرما ن بھی ھے ۔<اَوَلمْ یَہْدِ لَہُمْ> [7]

”کیا ان لوگوں کو یہ نھیں معلوم۔ “

لیکن خداوند عالم کا یہ فرمان :

<قَالَ رَبَّنَا الَّذِیْ اٴَعْطٰی کُلَّ شَیٴٍ خَلَقَہُ ثُمَّ ہَدیٰ >[8]

”(جناب موسی علیہ السلام نے کھا ) ھمارا پروردگار جس نے ھرچیز کو اسی کے (مناسب ) صورت عطافرمائی اور پھراس نے ہدایت کی“

اس کے معنی یہ ھیں کہ خداوند عالم نے ھر چیز کو اس طریقہ سے پیدا کیا ھے تا کہ اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔اس کے بعد اس کی زندگی کی طرف ہدایت کی ھے۔[9]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next