عهد جاهليت ميں عورتوں کا مرتبه



یہ واقعہ بعثت کے چالیس سال قبل پیش آیا، چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ھی اپنی تاریخ شروع کردی جو رسول خدا (ص) کے مکہ سے مدینہ کی جانب ھجرت کے عھد تک جاری رھی اور واقعات اسی سے منسوب کئے جانے لگے۔

قابل ذکر باتیں

۱۔ ابرھہ کا حملہ اگرچہ مذھبی محرک کا ھی نتیجہ تھا مگر اس کا سیاسی پھلو یہ تھا کہ سرزمین عرب پر سلطنت روم کا غلبہ ھوجائے اس لئے اس کی اھمیت مذھبی پھلو سے کسی طرح بھی کم نہ تھی، ابرھہ کا مکہ اور حجاز کے دیگر شھروں پر قابض ھوجانا سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے روم جیسی عظیم طاقت کی اھم فتح و کامرانی تھی، کیونکہ یھی ایک ایسا طریقہ تھا جسے بروئے کار لاکر شمال عرب کو جنوب عرب سے متصل کیا جاسکتا تھا، اس طرح پورے جزیرہ نما عرب پر حکومت روم کا غلبہ و تسلط ھو سکتا تھا، نیز اس کا استعمال ایران پر حملہ کرنے کے لئے فوجی چھاونی کے طور پر کیا جاسکتا تھا۔

۲۔ خداوند تعالیٰ کے حکم سے معجزہ کی شکل میں ابرھہ کے لشکر کی جس طرح تباھی و بربادی ھوئی اس کی تائید قرآن مجید اور اھل بیت علیھم السلام کی ان روایات سے ھوتی ھے جو ھم تک پھونچی ھیں۔ قرآن مجید کے سورہ فیل میں ارشاد ھے: الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل۔ الم یجعل کیدھم فی تضلیل و ارسل علیھم طیراً ابابیل۔ ترمیھم بحجارةٍ من سجّیل فجعلھم کعصفٍ ماکول۔ (تم نے دیکھا کہ تمھارے رب نے ھاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نھیں کردیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے جو ان پر پتھر پھینک رھے تھے پھر ان کا یہ حال کردیا جیسے (جانوروں) کا کھایا ھوا بھوسا)

جو لوگ اس واقعہ کی توجیہ پیش کرتے ھیں کہ اس سال مکہ میں چیچک کی بیماری ابرھہ کے سپاھیوں میں مکھیوں اور مچھروں کے ذریعہ پھیلی اور ان کی ھلاکت کا باعث ھوئی، بعض وہ مسلمان جو خود کو روشن فکر خیال کرتے ھیں وہ بھی مغرب کے مادہ پرستوں کے ھم خیال ھوگئے ھیں، قابل افسوس بات تو یہ ھے کہ بعض مسلم مورخین اور مفسرین بھی اس مغرب پرستی کا شکار ھوگئے ھیں۔

۳۔ ابرھہ کے لشکر کی شکست اور خانہ کعبہ کو گزند نہ پھونچنے کے باعث قریش پھلے سے بھی زیادہ مغرور و متکبر ھوگئے چنانچہ حرام کاموں کے کرنے، اخلاقی پستیوں کی جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے میں جو حرم کے باھر آباد تھے ان کی گستاخیاں اور دراز دستیاں پھلے سے کھیں زیادہ ھوگئیں، وہ برملا کھنے لگے کہ ھم ھی آل ابراھیم ھیں، ھم ھی پاسبان حرم ھیں، ھم ھی کعبہ کے اصل وارث ھیں، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جاہ و مرتبت میں عربوں کے درمیان کوئی ھمارا ھم پلہ نھیں ھے۔

ان نظریات کی بناپر انھوں نے حج کے بعض احکام، جو حرم کے باھر انجام دیئے جاتے ھیں جیسے عرفہ میں قیام، قطعی ترک کردیئے، ان کا حکم تھا کہ ان زائرین بیت اللہ کو جو حج یا عمرہ کی نیت سے آتے ھیں یہ حق نھیں ھے کہ اس کھانے کو کھائیں جسے وہ اپنے ساتھ لاتے ھیں، یا اپنے کپڑے پھن کر کعبہ کا طواف کریں۔

حضرت عبد اللہ

حضرت عبد المطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبد اللہ تھے، کہ جنھیں رسول خدا کے والد ھونے کا فخر حاصل ھوا وہ حضرت ابوطالب، امیر المومنین علی (ع) کے والد اور زبیر ایک ھی ماں یعنی حضرت فاطمہ کے بطن سے تھے، حضرت عبد اللہ اپنے والد کی نظروں میں دوسرے بھائیوں کے مقابل زیادہ قدر و منزلت کے حامل تھے، جس کی وجہ ان کے ذاتی اوصاف اور معنوی کمالات تھے، اس کے علاوہ دانشوروں اور کاھنوں نے بھی یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی نسل سے ایسا فرزند پیدا ھوگا جسے پیغمبری کے لئے منتخب کیا جائے گا، اس خوشخبری کی تائید و تصدیق اس خاص تابانی سے ھوتی تھی جو حضرت عبداللہ کے چھرے سے عیاں تھی۔

حضرت عبد المطلب نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبد اللہ کے لئے طائفہ بنی زھرہ کے سردار حضرت وھب بن عبد مناف کی دختر نیک اختر حضرت آمنہ سے رشتہ مانگا، اور انھیں اپنے فرزند دلبند کے حبالہ نکاح میں لے آئے، اس شادی خانہ آبادی کا حاصل و ثمرہ حضرت محمد (ص) کا وجود مسعود تھا، اور یھی وہ ذات گرامی ھے جسے بعد میں خاتم الانبیاء کھا گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next