عهد جاهليت ميں عورتوں کا مرتبه



قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکلیف کے زمانے کی یاد دلاتے ھوئے فرمایا ھے: الم یجدک یتیماً فآویٰ۔ (کیا اس نے تم کو یتیم نھیں پایا پھر ٹھکانہ فراھم کیا۔)

ابھی آپ نے زندگی کی آٹہ بھاریں بھی نہ دیکھی تھیں کہ دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبد المطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب کے زیر سرپرستی آگئے۔

حضرت ابو طالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم بھت زیادہ عزیز تھے وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ھوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد) کے آنے کا انتظار کرو۔

رسول خدا حضرت فاطمہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ھیں کہ حقیقی معنوں میں وھی ماں تھیں کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا کھانا دیتیں کہ شکم سیر ھوکر کھاتا ان کے بچے میلے ھی رھتے مگر مجھے نھلا دھلا کر ھمیشہ صاف ستھرا رکھتیں۔

خدائی تربیت

امیر المومنین حضرت علی (ع) پیغمبر اکرم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ھیں کہ لقد قرن اللہ بہ لدن ان کان فطئماً اعظم ملک من الملئکةٍ یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلاً و نھاراً۔ جس دن رسول خدا کا دودہ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ھمراہ کردیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راھوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راھنمائی کرتا رھے۔

رسالت کی جانب ایک قدم

شام کی طرف پھلا سفر

رسول خدا نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رھنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ھوا، یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ھوئی چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعہ ھی حضرت محمد (ص) کا گوھر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ھوا، اور یھیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کھنا شروع کیا۔

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ھمراہ اس کاروان قریش کے ساتۂ جو تجارت کے لئے ملک شام کی جانب جارھا تھا سفر پر روانہ ھوئے جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پھونچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لئے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا پر پڑی اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخر الزماںسے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیاں اسے نبی اکرم میں نظر آئیں تو اس نے آپ (ص) کو فوراً پھچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ (ص) کے نبی ھونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ھی یہ درخواست کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں مزید کھا۔

ان کے بارے میںجوکچھ میں جانتا ھوں اگر وھی باتیں یھودی بھی جان لیں تو وہ انھیں گزند پھونچائے بغیر نہ رھیں گے اس لئے بھلائی اسی میں ھے کہ انھیں جتنی جلدی ھوسکے واپس مکہ لے جائیے۔

حضرت ابوطالب(ع) نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آگئے اور پوری طرح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔

مستشرقین کی افتراء پردازی

راھب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے تو یہ تاریخ کا بھت معمولی واقعہ ھے لیکن بعض بد نیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ھے اور ان کا اس پر اصرار ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی اس غیر معمولی ذھانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بھت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انھی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کھہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعہ آپ پر نازل ھوئی ھیں لیکن پیغمبر اکرم(ص) کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الھامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و برھان سے اس گمان کی نفی ھوتی ھے ذیل میں ھم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ھیں:

۱۔ عقل کی رو سے یہ بات بعید ھے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان، کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ھو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکہ لے اور اٹھائیس سال بعد انھیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔

۲۔ اگر پیغمبر(ص) نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکہ لی تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ھوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آکر انھیں بیان کرتے اس کے علاوہ اس واقعہ کے بعد رسول اکرم(ص) اپنی قوم کے افراد سے یہ نھیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ھوں۔

۳۔ اگر تورات و انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ھوجائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نھیں جو ان کتابوں کے ھیں۔

۴۔ اگر عیسائی راھب کو اتنی زیادہ مذھبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشھور ھوا اور پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8