توبه کرنے والوں کے واقعات



چنانچہ حسب پروگرام قافلہ روانہ هـوگيا، ابراهـيم جيسے جيب کترے کے ساتهـ هـونے پر دوسرے زائرين تعجب کررهـے تهـے، ليکن کسي نے اس کے بارے ميں سوال کرنے کي هـمت نہ کي-

هـماري گاڑي کچي سڑک پر روانہ تهـي، اور جب ”زيدر“ نامي مقام پر پہنچي جوايک خطرناک جگہ تهـي ، اور وهـاںاکثر زائرين پر راہزنوں کا حملہ هـوتا تهـا، ديکهـا کہ راہزنوں نے سڑک کو تنگ کرديا اور هـماري گاڑي کے آگے کهـڑے هـوگئے ،پهـر ايک ڈاکو گاڑي ميں گهـس آيا، اور تمام زائرين کو دهـمکي دي: جو کچهـ بهـي کسي کے پاس هـے وہ اس تهـيلے ميں ڈال دے ، اور کوئي هـم سے الجهـنے کي کوشش نہ کرے،ورنہ تو اس کو مار ڈالوں گا!

وہ تمام زائرين اور ڈرائيور کے سارے پيسے لے کر چلتا بنا-

گاڑي دوبارہ چل پڑي، اور ايک چائے کے هـوٹل پر جارکي، زائرين گاڑي سے اترے اورغم و اندوہ کے عالم ميں ايک دوسرے کے پاس بيٹهـ گئے، سب سے زيادہ ڈرائيور پريشان تهـا، وہ کهـتا تهـا: ميرے پاس نہ يہ کہ اپنے خرچ کے لئے بهـي پيسہ نهـيں رهـے بلکہ پٹرول کے لئے بهـي پيسے نهـيں هـيں، اب کس طرح مشہد تک پہنچا جائے گا، يہ کہہ کر وہ رونے لگا، اس حيرت و پريشاني کے عالم ميں اس ابراهـيم جيب کترے نے ڈرائيور سے کهـا: تمهـارے کتنے پيسے وہ ڈاکو لے گيا هـے؟ ڈرائيور نے بتايا اتنے پيسہ ميرے گئے هـيں، ابراهـيم نے اس کو اتنے پيسے ديدئے ،پهـر اسي طرح تمام مسافروں کے جتنے جتنے پيسہ چوري هـوئے تهـے سب سے معلوم کرکے ان کو ديدئے ، آخر ميں اس کے پاس ۳۰/ ريال باقي بچے، اور کهـا کہ يہ پيسے ميرے هـيں ،جو چوري هـوئے تهـے،سب نے تعجب سے سوال کيا: يہ سارے پيسے تمهـارے پاس کهـاں سے آئے؟ اس نے کهـا:جس وقت اس ڈاکو نے تم سب لوگوں کے پيسے لے لئے اور مطمئن هـوکر واپس جانے لگا ،تو ميں نے آرام سے اس کے پيسے نکال لئے، اور پهـر گاڑي چل دي،اور هـم يهـاں تک پہنچ گئے هـيں، يہ تمام پيسہ آپ هـي لوگوں کے هـيں-

قافلہ سالار کهـتا هـے:ميں زور زور سے رونے لگا، يہ ديکهـ کر ابراهـيم Ù†Û’ مجهـ سے کهـا: تمهـارے پيسے تو واپس مل گئے ØŒ اب کيوں روتے هـو؟!  ميں Ù†Û’ اپنا وہ خواب بيان کيا جو تين دن تک مسلسل ديکهـتا رهـا تهـا او رکهـاکہ مجهـے خواب کا فلسفہ سمجهـ ميں نهـيں آرهـا تهـا ،ليکن اب معلوم هـوگيا کہ حضرت امام رضا عليہ السلام Ú©ÙŠ دعوت کس وجہ سے تهـي، امام عليہ السلام Ù†Û’ تيرے ذريعہ سے هـم سے يہ خطرہ ڈال ديا هـے-

يہ سن کر ابراهـيم کي حالت بدل گئي، اس کے اندر ايک عجيب و غريب انقلاب پيدا هـوگيا، وہ زور زور سے رونے لگا، يهـاں تک کہ ”سلام“ نامي پهـاڑي آگئي کہ جهـاں سے حضرت امام رضا عليہ السلام کا روضہ دکهـائي ديتا هـے، وهـاں پہنچ کر ابراهـيم نے کهـا: ميري گردن ميں زنجير باندهـ دي جائے، اور حرم امام رضا عليہ السلام ميں اسي طرح لے جايا جائے، چنانچہ جيسے جيسے وہ کهـتا رهـا هـم لوگ انجام ديتے رهـے، جب تک هـم لوگ مشہد ميں رهـے اس کي يهـي حالت رهـي ، واقعاً عجيب طريقہ سے توبہ کي ، اس بڑهـيا کے پيسے امام رضا عليہ السلام کي ضريح ميں ڈال دئے، امام رضا عليہ السلام کو شفيع قرار ديا تاکہ اس کے گناہ معاف هـوجائےں، تمام زائرين اس کي حالت پر رشک کررهـے تهـے، هـمارا سفر بخير و خوشي تمام هـوا، تمام لوگ اروميہ پلٹ گئے ليکن وہ تائب ديا يار ميں رہ گيا!

توسّل اور توبہ

امام صادق عليہ السلام فرماتے هـيں: ميں مسجد الحرام ميں ”مقام ابراهـيم“ کے پاس بيٹهـا هـوا تهـا، ايک ايسا بوڑهـا شخص آيا جس نے اپني سار ي عمر گناهـوں ميں بسر کي تهـي، مجهـے ديکهـتے هـي کہنے لگا:

”نِعْمَ الشْفيعُ اِليَ اللّٰہ لِلْمُذْنِبِيْنَ“-

”آپ خدا کے نزديک گناهـگاروں کے لئے بهـترين شفيع هـيں “-

اور پهـر اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا اور درج ذيل مضمون کے اشعار پڑهـے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next