خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت



امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ھیں اور فرماتے ھیں : ” دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انھیں چیزوں کو زندہ کریں جنھیں قرآن نے زندہ کیا ھے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ھے انھیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردےں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناھے اور اسے ھلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ھے پس قرآن اگر ھمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ھم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انھیں ھماری طرف کھینچ لائے تو انھیں ھماری پیروی کرنی چاھیے ، تمہارا برا ھو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نھیں کیا نہ تمھیں دھوکہ دیا ھے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ھے ۔[3]

Û²Û”   وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں Ú©Û’ لئے وقت معین ھوا Ú¾Û’ اور یہ Ø·Û’ پایا Ú¾Û’ کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ھونے تک  اختلاف Ú©Û’ بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین Ú¾ÛŒ میں اس دن کیوں نھیں انجام دیا گیا جس دن قرآن Ú©Ùˆ نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نھیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ھواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ھوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاھل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ھو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراھم ھوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب Ú©Û’ اعتراض میں فرماتے ھیں : ” وَاماقَو Ù„Ú©Ù…:لم جعلت بینکم Ùˆ بھینم  اٴجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّّنَ الجَاھِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰہ اَن یصلحَ فی ھذہِ الھُدنَةِ اٴمرھذہ الامةِ “[4]اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ Ù†Û’ اپنے اور ان Ú©Û’ درمیان تحکیم Ú©ÛŒ مھلت کیوں دی تو میں Ù†Û’ یہ موقع اس لئے دیا کہ جاھل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ھوجائے ØŒ اور شاید خداوند عالم اس مھلت Ú©Û’ ذریعے اس امت Ú©Û’ حالات Ú©ÛŒ اصلاح فرمادے۔

۳۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض

خوارج Ù†Û’ امام علیہ السلام سے مخالفت Ú©Û’ زمانے میںآیة ” لاحکم الّا لِلّٰہ “ کا سہارا لیا اورحضرت Ú©Û’ کام Ú©Ùˆ نص قرآن Ú©Û’ خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا: ”لاحکم الّا لِلّٰہ لا Ù„ÙŽÚ©ÙŽ Ùˆ          لا لِاَصحابک یا عليُّ“یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص Ú¾Û’ نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا Ú¾Û’ قرآن سے اقتباس Ú¾Û’ جو سورہ یوسف آیت نمبر Û´Û° اور Û¶Û· میں وارد ھوا Ú¾Û’ اور اس کا مفھوم توحید Ú©Û’ اصول میں شمار ھوتاھے اور اس بات Ú©ÛŒ حکایت کرتاھے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق Ú¾Û’ جو خدا سے مخصوص Ú¾Û’ اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نھیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ھونا اس چیز Ú©Û’ منافی نھیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط Ú©Û’ ساتھ جن میں سب سے اھم خداکی اجازت Ú¾Û’ دنیا پر حکومت کرے ØŒ اورخدا Ú©ÛŒ حاکمیت Ú©ÛŒ تجلی گاہ ھوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نھیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت Ú©Û’ ممکن Ú¾Û’ ØŒ کیونکہ وظائف Ùˆ فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ھونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ھوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت Ú©Û’ سایہ میں انجام پاسکتی Ú¾Û’Úº Û”

اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ھے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ھے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ھے: ” کلمة حقٍ یراد بھا الباطل، نعم انّہ‘ لاحکم الّٰا لِلّٰہ ولکن ھولاءِ یقولون لا امراة الا لِلّٰہ وانَّہ لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر “[5]

”بات حق Ú¾Û’ مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاھے ہاں بے Ø´Ú© Ø­Ú©Ù… خدا Ú¾ÛŒ Ú©Û’ لئے Ú¾Û’ لیکن یہ لوگ تو کہتے ھیںکہ امیر (حاکم) بھی اس Ú©Û’ سوا کوئی نھیں Ú¾Û’ حالانکہ لوگوں Ú©Û’ لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ھونا لازم Ú¾Û’ نیکو کار ھویا فاسق وفاجر ØŒ تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے  اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے “۔

اگر حکومت نہ ھوتو امن اور چین نھیں ھوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ھوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ھوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نھیں دینا ھے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next