ابن سعود کا حجاز پر حملہ



 

  

شریف حسین کی بادشاھت تقریباً آٹھ سال تک باقی رھی ، لیکن مختلف وجوھات کی بناپر جن میں سے بعض کو ھم نے بیان بھی کیا ھے، اس حکومت کی چولیں ھلنے لگیں اس مدت میں ابن سعود نے بھی کوئی روک ٹوک نھیں کی، جس کی وجہ سے یہ سمجھا جارھا تھا کہ وہ گوشہ نشین هوگیا ھے، لیکن ابن سعود دوراندریشی کررھا تھا اور حجاز پر حملہ کرنے کے لئے بھترین فرصت کا منتظر تھا۔

ابن سعود کی سب سے زیادہ توجہ دو چیزوں کی طرف تھی ایک یہ کہ اگر اس نے حجاز پر حملہ کیا تو کیا انگلینڈ کی حکومت خاموش رھے گی اور دوسری طرف اس کے دوبیٹے ملک فیصل عراقی حاکم اور ملک عبد اللہ اردن کا حاکم ھر حال میں اپنے باپ کی مدد کریں گے۔

انگلینڈ کے بارے میں جیسا کہ تاریخ مکہ کے موٴلف لکھتے ھیں کہ[1] ”اس کی استعماری چال اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ”عقبہ بندرگاہ“ حجاز سے جدا هوجائے اور مشرقی اردن سے ساتھ ملحق هو جائے جو امیر عبد اللہ بن شریف حسین کی حکومت کے زیر اثر ھے۔

لیکن اس سلسلہ میں شریف حسین انگریزوں کی سخت مخالفت کرتا تھا جس کی بناپر انھوں نے بھی اس کے ھمیشگی دشمن ابن سعود کے مقابلہ میں تنھا چھوڑ دیا، آخر کار ابن سعود نے حجاز پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنالیا، اور اسی پروگرام کے تحت ماہ ذیقعدہ ۱۳۴۲ھ کے شروع میں اس نے اپنے باپ عبد الرحمن کی سرپرستی میں ریاض میں علماء اور روٴسا کی ایک انجمن تشکیل دی۔

عبد الرحمن نے سب سے پھلے گفتگو کا آغاز کیا کہ ھمارے پاس کچھ خطوط آئے ھیں جن میں ھم سے حج بجالانے کی درخواست کی گئی ھے ، اور میں نے ان خطوط کو اپنے بیٹے عبد العزیز کے حوالے کردیا ھے اور وھی تمھارا امام ھے[2] جو بھی چاھتے هو اس سے کهو۔

اس کے بعد ابن سعود نے خطاب کیا اور کھا تمھارے خطوط ھمارے پاس پهونچے اور میں تمھاری شکایتوں سے آگاہ هوا ، ھر چیز کا ایک جگہ پر خاتمہ هوجاتا ھے ، اور ھر کام بموقع انجام دیا جانا چاہئے ، ابن سعود کی تقریر کے بعد آپس میں گفتگو هوئی جس کے نتیجہ میںحاضرین نے حجاز پر حملہ کرنا طے کیا، کیونکہ تین سال سے شریف حسین نے نجدیوں کو حج کرنے کی اجازت نھیں دی تھی۔

چنانچہ ابن سعود نے اپنے منصوبے کے تحت” سلطان بن بجاد“کی سرداری میں حملہ کے لئے ایک لشکرمکہ کی طرف روانہ کیا اس لشکر نے کئی حملوں کے بعد ماہ صفر ۱۳۴۳ھ میں طائف کو فتح کرلیا۔

صلاح الدین مختار کے بقول شریف حسین ( شریف حسین کو سلطنت پر پهونچنے کے بعد ملک حسین کھا جانے لگا) نے جب اپنی حالت کمزور دیکھی، جدّہ میں برٹین کے سفیر سے مدد چاھی، چنانچہ اس سفیر نے وعدہ دیا کہ وہ اس کی درخواست کو انگلینڈ پهونچائے گا۔

شریف حسین جدّہ سے مکہ واپس چلا گیا اور انگلینڈ کی مدد کا انتظار کرتا رھا، ادھر انگلینڈ کی حکومت نے اپنے سفیر کو جواب دیا کہ ابن سعود اور شریف میں جنگ ایک مذھبی جنگ ھے او رھم اس میں مداخلت نھیں کرنا چاھتے، لیکن اگر حالات ان کے درمیان صلح کرانے کی اجازت دیں تو ھم اس چیز کے لئے تیار ھیں۔[3]



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next