ابن سعود کا حجاز پر حملہ



سمهودی متوفی  Û¹Û±Û±Ú¾ Ù†Û’ بھی بقیع Ú©ÛŒ قبور Ú©Û’ بارے میں Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ صدی سے دسویں صدی تک Ú©ÛŒ تفصیل بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’Û”

وہ کھتے ھیں کہ جناب عباس پیغمبر اکرم   صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم ØŒ حسن بن علی  +اور بقیع میں دیگر دفن شدہ حضرات Ú©ÛŒ قبروں پر بھت اونچی گنبد Ú¾Û’Û”

اسی طرح ابن نجار کھتے ھیں کہ اس گنبد (قبور ائمہ  علیهم السلام ) Ú©ÛŒ عمارت بھت قدیمی اور بلند Ú¾Û’ØŒ اس عمارت Ú©Û’ دو دروازے ھیں کہ ان میں ایک دروازہ ھر روز کھلتا Ú¾Û’ØŒ ابن نجار Ù†Û’ اس عمارت Ú©Û’ بانی کا نام ذکر نھیں کیا Ú¾Û’ لیکن ”مطری“ صاحب کھتے ھیں کہ اس عمارت کا بانی ”خلیفة الناصر احمد بن المستضی“ Ú¾Û’Û”

قارئین کرام  !  ”مطری “ صاحب کا یہ نظریہ صحیح نھیں دکھائی دیتا، کیونکہ ابن نجار اورخلیفہ ناصر دونوںھمعصر تھے اور ابن نجار Ù†Û’ اس عمارت Ú©Ùˆ قدیمی بتایا Ú¾Û’ لیکن میں (سمهودی) Ù†Û’ اس بقعہ Ú©ÛŒ محراب میں لکھا دیکھا کہ یہ عمارت منصور مستنصر باللہ Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے بنائی گئی Ú¾Û’ ØŒ لیکن نہ تو اس کا نام اور نہ Ú¾ÛŒ عمارت Ú©ÛŒ تاریخ Ù„Ú©Ú¾ÛŒ هوئی Ú¾Û’Û”

سمهودی صاحب اس کے بعد کھتے ھیں کہ قبر عباس اور حسن ں زمین سے اونچی ھے اور ان کا مقبرہ وسیع ھے اور اس کی دیواروں میں خوبصورت لوح اور تختی بھترین طریقہ سے لگائی گئی ھیں، اور آخر میںسمهودی صاحب نے بقیع میں موجود دوسری عمارتوں کا بھی ذکر کیا ھے۔ [19]

اسی طرح ابن جبَیر چھٹی صدی کے مشهور ومعروف سیاح نے بھی جناب عباس اور حضرت امام حسن ں کی قبراور ان پر موجود بلند گنبد اور اس کے اندر کی خوبصورتی کی توصیف کی ھے۔ [20]

مقدس مقامات کے لئے ایک اسلامی انجمن کی تشکیل

ابن سعود نے مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنے کے بعد یہ سوچا کہ ان دونوں شھروں پر حکمرانی کرنے کے لئے عالم اسلام کے مشورے سے کوئی قدم اٹھائے۔

 Ø§Ø³ÛŒ منصوبہ Ú©Û’ تحت مختلف اسلامی ملکوں سے مثلاً ترکی ØŒ ایران، افغانستان اور یمن سے اسی طرح دیگر سر زمینوں Ú©Û’ روساٴ مثلاً مصر، عراق، مشرقی اردن سے نیز امیر عبد الکریم ریفی، حاج امین الحسینی مفتی بزرگ فلسطین ØŒ ٹونس، دمشق اور بیروت Ú©Û’ والیوں Ú©Ùˆ دعوت دی تاکہ اس عظیم کانفرس میں شرکت کریں یا اپنے نمائندے بھیجیں ØŒ (تاکہ ان دونوں شھروں Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ بارے میں غور وفکر کیا جاسکے) اور یہ دعوت Û±Û°  ربیع الثانی Û±Û³Û´Û´Ú¾ میں دی گئی۔

لیکن اکثر لوگوں نے اس دعوت کو قبول نھیں کیااور صرف چند ملکوں نے اس کو قبول کیا اور مذکورہ انجمن کی تشکیل میں شرکت کی، شرکت کرنے والوں میں ہندوستان کے مسلمان بھی تھے،[21]سب نے مل کر یہ طے کیا کہ حجاز میں ایک ایسی جمهوری حکومت تشکیل دی جانی چاہئے جس میں تمام مسلمانوں کو شریک کیا جائے، اور یہ بھی طے هوا کہ اس کا اھم خرچ بھی ھم خود قبول کریں گے،[22] لیکن یہ پیش کش مختلف وجوھات کی بناپر عملی نہ هو سکی۔

ایران کے شرکت نہ کرنے کی وجہ

مرحوم علامہ عاملی Ú©ÛŒ تحریر Ú©Û’ مطابق ایران Ù†Û’ مذکورہ کانفرس میں اپنا نمائندہ بھیجنے کا منصوبہ بنالیا تھا لیکن جیسے Ú¾ÛŒ بقیع میں قبور ائمہ   علیهم السلام  Ú©ÛŒ ویرانی Ú©ÛŒ اطلاع پهونچی ØŒ تواعتراض Ú©Û’ طور پر ایران Ù†Û’ اپنا نمائندہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کرلیا، اور اپنے حاجیوں Ú©Ùˆ بھی حج Ú©Û’ لئے نھیں بھیجا تاکہ کھیں ان Ú©Û’ لئے کوئی خطرہ درپیش نہ هو، اور جب  Û±Û³Û´Û¶Ú¾ میں کوئی خطرہ نہ دکھائی دیا تو حاجیوں Ú©Ùˆ حج کرنے Ú©ÛŒ اجازت دے دی گئی۔ [23]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next