ابن سعود کا حجاز پر حملہ



ملک علی کو سلطنت ملنا

اس وقت مکہ میں ”حزب وطنی“ کے نام سے ایک انجمن بنائی گئی جس کا اصل مقصد حجاز کو افرا تفری کے ماحول سے نکالکر امن وامان قائم کرنا، چنانچہ اس انجمن نے یہ طے کیا کہ ملک حسین حکومت سے ہٹ جائے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ملک علی حجاز کا بادشاہ بنے۔

چنانچہ” حزب وطنی“ انجمن Ù†Û’ چھار ربیع الاول Û±Û³Û´Û³Ú¾ میں تقریباً ایک سو چالیس علماء ØŒ اھم شخصیات اور تاجروں Ú©Û’ دستخط کراکے ملک حسین Ú©Ùˆ ٹیلیگرام کیا اور اپنی رائے کا اظھار کیا۔ ملک حسین Ù†Û’ مجبوراً اس پیشکش Ú©Ùˆ قبول کرلیا ØŒ اس Ú©Û’ دوسرے دن حزب وطنی انجمن Ù†Û’ ملک علی جو جدّہ میں تھا ٹیلیگرام بھیج کر مکہ بلالیا چنانچہ ملک علی Ù†Û’ Ûµ  ربیع الاول Ú©Ùˆ حکومت Ú©ÛŒ باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں Ù„Û’ لی، لیکن اس تبدیلی کا بھی کوئی اثر نھیں هوا ØŒ کیونکہ ابن سعود ملک علی Ú©Ùˆ بھی اسی نگاہ سے دیکھتا تھا جس نگاہ سے اس Ú©Û’ باپ ملک حسین Ú©Ùˆ دیکھتا تھا[4] لہٰذا سر زمین حجاز Ú©Û’ حالات اسی طرح خراب رھے۔

شریف حسین کا انجام

شریف حسین حکومت چھوڑ کر مکہ سے جدّہ کی طرف روانہ هوئے اور دس ربیع الاول کو جدّہ پهونچ گئے ماہ ربیع الاول کی ۱۶ ویں شب میں اپنے غلاموں کے ساتھ کشتی سے عقبہ بندرگاہ کے لئے روانہ هوئے، اور اپنے مقصد پر پهونچنے کے بعد بھی ملک علی کی ترقی اور پیشرفت کے لئے کوشش کرتے رھے، اس کی حکومت کو سر سبز دیکھنا چاھتے تھے۔

اسی مدت میں انگلینڈ کی حکومت نے اپنے امیر البحر کے ذریعہ ملک حسین کو اخطاریہ (اَلٹی میٹم) دیا کہ تین ہفتوں کی مدت میں عقبہ بندرگاہ کو چھوڑ دےں، اور جھاں جانا چاھیں وھاںچلے جائیں۔

شروع میں انھوں نے اس دھمکی کو نھیں مانا لیکن کچھ مدت گذرنے کے بعد اور کچھ واقعات کی بناپر جن کو ھم بیان نھیں کرسکتے مجبور هوگیا اور کشتی پر سوار هوکر جزیرہ ”قبرس“ کے لئے روانہ هوگیا۔

شریف حسین اس قدر انگلینڈ کی حکومت سے بدظن هوگئے تھے کہ اپنے مخصوص باورچی کے علاوہ کسی دوسرے کے ھاتھ کا کھانا نھیں کھاتے تھے تاکہ کوئی ان کو (انگلینڈ کی حکومت کے اشارہ پر) زھر نہ دیدے۔

شریف حسین  ۱۹۳۱ء تک قبرس میں رھے اور اسی سال بیمار هوئے اور جب ان Ú©ÛŒ بیماری بڑھتی گئی،وہ عَمّان (اپنے بیٹے امیر عبد اللہ Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ پائے تخت) Ú†Ù„Û’ گئے ØŒ اور اسی سال وھیں پر انتقال کیا اور بیت المقدس میں” قدس شریف قبرستان“ میں دفن کردئے گئے۔ [5]

ابن سعود مکہ میں

اس وقت مدینہ، جدّہ اور بندرگاہ ینبع Ú©Û’ علاوہ تمام سر زمین ابن سعود Ú©Û’ اختیار میں تھی، اور دونوں طرف سے نمائندوں Ú©ÛŒ آمد ورفت هوتی رھی تاکہ آپس میں صلح اوردوستی هوجائے لیکن کوئی نتیجہ نھیں نکلا۔ ابن سعود Û±Û°  ربیع الثانی Û±Û³Û´Û³Ú¾ Ú©Ùˆ ریاض سے عمرہ Ú©Û’ لئے مکہ Ú©ÛŒ طرف روانہ هوا، اور دوسرے حکّام منجملہ امام یحيٰ یمن Ú©Û’ بادشاہ Ú©Ùˆ خط لکھا کہ اپنی طرف سے مکہ میںکچھ نمائندے بھیجےں تاکہ عالم اسلام Ú©Û’ تمام نمائندے ایک جگہ جمع هوکر یہ Ø·Û’ کریں کہ مسجد الحرام اور خانہ کعبہ Ú©Ùˆ سیاسی معاملات سے کس طرح دور رکھا جائے۔

ابن سعود کے ساتھ بھت سے سپاھی، علمائے نجد، اور محمد بن عبد الوھاب کے خاندان والے نیز دوسرے قبیلوں کے سردار بھی تھے ، چوبیس روز کی مدت میں مکہ کے قریب پهونچے اور جس وقت عرفات پھاڑ کے علاقہ میں پهونچے تو ”ابن لُوٴی“ نے جو مکہ میں اس کے لشکر کا سردار تھا تقریباً ایک ہزار اخوان لوگوں کے ساتھ اس کے استقبال کوگیا۔

ابن سعود گھوڑے سے نیچے اترا، اور مسجد الحرام کی طرف چلا، وھاں پهونچ کر طواف کیا اور جس وقت وہ مکہ میں پهونچا تو ماہ جمادی الاول کی ساتویں تاریخ تھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next