ابن سعود کا حجاز پر حملہ



حجاز میں ابن سعود کی سلطنت

مذکورہ انجمن کا کوئی نتیجہ حاصل نہ هواتو مکہ معظمہ Ú©Û’ تیس علماء جدّہ پهونچے اور ان Ú©Û’ حضور میں ایک انجمن تشکیل دی گئی، اور Û²Û²  جمادی الثانیہ  Û±Û³Û´Û´Ú¾ Ú©Ùˆ اتفاق رائے سے یہ Ø·Û’ هوا کہ سلطان عبد العزیز آل سعود Ú©ÛŒ حجاز Ú©Û’ بادشاہ Ú©Û’ عنوان سے بیعت Ú©ÛŒ جائے ØŒ اور اس Ú©Ùˆ یہ اطلاع دی کہ وہ بیعت Ú©Û’ لئے کوئی وقت معین کرے۔

Û²Ûµ  ربیع الثانی بروز جمعہ نماز جمعہ Ú©Û’ بعد باب الصفا (مسجد الحرام Ú©Û’ ایک دروازے) Ú©Û’ پاس جمع هوئے اور ابن سعود بھی تشریف لائے اور ایک پروگرام Ú©Û’ ضمن میں سید عبد اللہ دملوجی Ù†Û’ جو ابن سعود Ú©Û’ مشاورین میں سے تھا، بیعت Ú©Û’ طریقہٴ کار Ú©Ùˆ لوگوں Ú©Û’ سامنے بیان کیا،[24] (خوشی کا یہ عالم تھا کہ) اس موقع پر توپ Ú©Û’ ایک سو ایک گولے داغے گئے۔

اس طریقہ سے ابن سعود نجد وحجاز کا بادشاہ بن گیا اور سب سے پھلے اس کو رسمی طور پر قبول کرنے والا” روس“ تھا ، اس کے بعد انگلینڈ ، فرانس، هولینڈ ، ترکی اور اس کے بعد دوسری حکومتوں نے قبول کرنا شروع کیا۔

سلطان عبد العزیز بن سعود نے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے بھت زیادہ کوشش کی ، اور اس سلسلہ میں بھت سی حکومتوں سے معاہدے کئے، اور بھت سی شورش اور بلووں کو منجملہ فیصل الدرویش کی شورش کو ختم کیا اور اپنے تمام مخالفوں کو نیست ونابودکردیا، ایک دفعہ اس پر مسجد الحرام میں طواف کے وقت چار یمنیوں (زیدی مذھب) نے حملہ کردیا لیکن وہ زندہ بچ گیا ، اور آخر کار ملک میں امن وامان قائم هوگیا جو اس ملک میں بے نظیر تھا۔ [25]

ابن سعود اور ادریسی حکمراں

جس وقت ابن سعود نے حجاز کو اپنے تصرف اور قبضہ میں کرلیا، اس وقت امام یحيٰ (امام یمن) نے سید حسن ادریسی کے زیر ولایت عسیر نامی جگہ(جو نجدکے علاقہ میںتھا) پر حملہ کردیا اور وھاں کی اکثر چیزوں کو نابود کردیا، یہ دیکھ کر ادریسی افراد خوف زدہ هوگئے کہ کھیں ایسا نہ هو کہ امام یحيٰ کے حملوں سے آل ادریس کی ولایت خطرے میں پڑجائے، اس وجہ سے ابن سعود کو خطوط لکھے اور اپنی طرف سے اس کے پاس نمائندے بھیجے ، جس کے نتیجے میں ۱۴ ربیع الثانی ۱۳۴۵ھ کو دونوں کے درمیان معاہدہ هوا جس میں یہ طے هوا کہ عسیر کی امارت ابن سعود کی حمایت میں ھے، اس معاہدہ میں ۱۴بند تھے جس کے دوسرے بند میں امیر ادریس کو ابن سعود کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک سے گفتگو کرنے کی اجازت نھیں تھی اور تیسرے بند کے مطابق امیر ادریس کو یہ بھی حق حاصل نھیں تھا کہ کسی کے ساتھ اعلان جنگ کرے یا کسی کے ساتھ صلح کرے، مگر یہ کہ آل سعود کی اجازت سے هو، اور اس کے چھٹے بند کے مطابق امیر ادریس کو عسیرکے داخلی امور میں تصرف کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

لیکن ماہ رجب ۱۳۵۱ھ میں ادریسیوں نے ابن سعود کے خلاف شورش کردی، چنانچہ ابن سعود نے حجاز اور نجد سے لشکر تیار کرکے عسیر کی طرف روانہ کیا، جس کے نتیجہ میں وھاں کے حالات صحیح هوگئے ، اس وقت ابن سعود نے موقع کو غنیمت شمار کیا اور عسیر میں ادریسیوں کی فرمان روائی کے خاتمہ کا اعلان کردیا، اور اس کے بعد عسیر بھی سعودی عرب کا ایک استان ( اسٹیٹ) بن گیا ، اور سیدحسن ادریسی کے لئے عسیر میں قیام نہ کرنے کی شرط پر ماھانہ دوہزار سعودی ریال مقرر کئے ۔ [26]

 

------------------------------------------------------

 



[1] تاریخ مکہ ج۲ ص ۲۳۶۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next