ابن سعود کا حجاز پر حملہ



علمائے مکہ اور علمائے نجد میں مناظرہ

دوسرے روز مکہ کے علماء جن میں سب سے اھم شخصیت شیخ عبد القادر شیبی کلید دار خانہ کعبہ[6] تھے ابن سعود کے دیدار کے لئے آئے ، ابن سعود نے علماء کو مخاطب کرتے هوئے ایک تقریر کی، جس میںمحمد بن عبد الوھاب کی دعوت کی طرف یاددھانی کرائی، اور کھا کہ ھمارے دینی احکام احمد بن حنبل کے اجتھاد کے مطابق ھیں، اور اگر آپ لوگ بھی اس بات کو مانتے ھیں تو آئےے آپس میں بیعت کریں کہ کتاب خدا اور سنت خلفائے راشدین پر عمل کریں۔

تمام لوگوں نے اس بیعت کی موافقت کی ، اس کے بعد مکی علماء میں سے ایک عالم دین نے ابن سعود سے درخواست کی کہ کوئی ایسا جلسہ ترتیب دیں جس میں علمائے مکہ اور علمائے نجد اصول اور فروع کے بارے میں مباحثہ اور مناظرہ کریں، اس نے بھی اس پیش کش کو قبول کرلیا، اور ۱۱ جمادی الاول کو پندرہ علمائے مکہ اور سات علمائے نجد ایک جگہ جمع هوئے اور کافی دیر تک بحث وگفتگو هوتی رھی اور آخر میں علمائے مکہ کی طرف سے ایک بیانیہ نشر کیا گیا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ اصول کے بارے میں ھم میں اور نجدی علماء میں کوئی فرق نھیں ھے منجملہ یہ کہ جو شخص اپنے او رخدا کے درمیان کسی کو واسطہ قرار دے کافر ھے، اور اس کو تین دفعہ توبہ کے لئے کھا جائے اگر توبہ نھیں کرتا تو اس کو قتل کردیا جائے ، اسی طرح قبروں کے اوپر عمارت بنانا، وھاں چراغ جلانا قبور کے پاس نماز پڑھنا حرام ھے، اسی طرح اگر کوئی کسی غیر خدا کو اس کی جاہ ومنزلت کے ذریعہ پکارتا ھے تو وہ گویا بدعت کا مرتکب هوا ھے، اور شریعت اسلام میں بدعت حرام ھے۔ [7]

جدّہ پر قبضہ

تقریباً ایک سال تک یعنی ماہ جمادی الاول Û±Û³Û´Û´Ú¾ تک ابن سعود اور ملک علی Ú©Û’ درمیان جدّہ میں جنگیں هوتی رھیں، لیکن ماہ جمادی الاول Ú©Û’ آخر میں ملک علی Ù†Û’ جدّہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ اور اس Ú©Ùˆ ابن سعود Ú©Ùˆ دینے کا فیصلہ کرلیا، اور اس کام Ú©Û’ بدلے جدّہ میں انگلینڈ Ú©Û’ سفیر ”گُورْدون“ Ú©Û’ ذریعہ ابن سعود Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ پیش Ú©Ø´ Ú©ÛŒ گئی، چنانچہ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ جمادی الثانی Ú©Ùˆ ابن سعود اور انگلینڈ Ú©Û’ سفیر میں ملاقات هوئی اور سفیر Ù†Û’ ملک علی Ú©ÛŒ سترہ شرائط پر مشتمل پیش Ú©Ø´ Ú©Ùˆ ابن سعود Ú©Û’ حوالہ کیا، اور ابن سعود Ù†Û’ ان شرائط Ú©Ùˆ قبول کرلیا، اس Ú©Û’ بعد چھارم جمادی الثانی Ú©Ùˆ سفیر Ù†Û’ ابن سعود Ú©Ùˆ خبر دی کہ ملک علی انگلینڈ Ú©ÛŒ      ”کورن فِلاوِر“ نامی کشتی پر سوار هوکر عَدَن Ú©Û’ لئے روانہ هورھے ھیں اور وھاں سے عراق جانے کا قصد کرلیا،

 Û¶ جمادی الثانی Ú©Ùˆ ملک علی مذکورہ کشتی پر سوار هوکر عدن Ú©Û’ لئے روانہ هوگئے اور ساتویں دن Ú©ÛŒ صبح Ú©Ùˆ ابن سعود جدّہ پهونچ گئے ØŒ اور جب شھر Ú©Û’ قریب پهونچے تو ”کَندرہ“ نامی محلہ میں بھت زبر دست استقبال هوا۔ [8]

مدینہ پر قبضہ

جس وقت ابن سعود مکہ سے جدہ کے راستہ میں ”بَحرہ“ نامی مقام پر پهونچا تو امیر مدینہ ”شریف شحات“ کی طرف سے ایک مخصوص قاصد آیا اور ایک خط ابن سعود کو دیا جس میں امیر مدینہ نے اس کی اطاعت پر مبنی پیغام بھیجا تھا اور اس خط میں ابن سعود کو لکھا تھا کہ اپنی طرف سے کسی کو مدینہ کا والی اور امیر بناکر روانہ کردے، چنانچہ ابن سعود یہ خط دیکھ کر مکہ واپس پلٹ آیا اور اپنے تیسرے بیٹے امیر محمد کو مدینہ کا امیر بناکر روانہ کیا ، اور ۲۳ ربیع الثانی کو امیر محمد اپنے کچھ سپاھیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد هوا ، اور اھالی مدینہ کو اپنے آنے کا ہدف سنایا۔

لیکن ملک علی کی طرف سے معین کردہ سردارِ لشکر نے قبول نہ کیا لیکن غذا اور وسائل کی قلت ملک علی بھی اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا دو مھینہ کی پائیداری کے بعدشھر مدینہ امیر محمد کے حوالہ کردیا، چنانچہ امیر محمد نے ۱۹ جمادی الاول ۱۳۴۴ھ کی صبح کو مدینہ شھر پر قبضہ کرلیا۔ [9]

قبروں اور روضوں کی ویرانی

ھم نے اس بات کی طرف پھلے بھی اشارہ کیا ھے کہ وھابیوں کے قدم جھاں بھی جاتے تھے وھاں پر موجود تمام روضوں اور مقبروں کو مسمار کردیا کرتے تھے، اور جب بھی حجاز کے شھروں پر قبضہ کیا ھے انھوں نے یہ کام انجام دیا ھے۔

مکہ کے بعض روضوں اور مقابر کو پھلی ھی دفعہ میں قبضہ هونے کے بعد مسمار کرچکے تھے، جیساکہ ھم نے پھلے عرض کیا ھے، اور اس وقت مکہ اور قرب وجوار میں باقی بچے تمام روضوں اور مقبروںکو مسمار کردیا، یھاں تک کہ حجاز کے جس علاقہ میں بھی مقبرے تھے سب کو گراکر خاک کردیا، سب سے پھلے طائف میں موجود عبد اللہ بن عباس کی گنبد کو گرادیا، اور اس کے بعد مکہ میں موجود حضرت عبد المطلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا، جناب ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا، جناب خدیجہ پیغمبر اکرم کی زوجہ کے روضوں کو مسمار کیا ، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب فاطمہ زھرا (س) کی جائے ولادت پر بنی عمارتوں کو بھی مسمار کردیا۔

اسی طرح جدّہ میں جناب حوّا (یا جناب حوّا سے منسوب) کی قبر کو مسمار کردیا، خلاصہ یہ کہ مکہ اور جدہ کے علاقے میں موجود تمام مزاروں کو گرادیا ، اسی طرح جب مدینہ پر ان کا قبضہ تھا جناب حمزہ کی مسجد اور ان کے مزار کو اور اسی طرح شھر سے باھر شہداء احد کے مقبروں کو بھی مسمار کردیا۔

قبرستان بقیع کی تخریب

جس وقت مدینہ منورہ وھابیوں کے قبضہ میں چلا گیا ، مکہ معظمہ کا شیخ ”عبد اللّٰہ بِن بُلْیَہِدْ“ وھابیوں کا قاضی القضاة ماہ رمضان میں مدینہ منورہ آیا اور اھل مدینہ سے وھاں موجود قبروں کو منہدم کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ تمھارا اس سلسلہ میں کیا نظریہ ھے؟ کچھ لوگوں نے تو ڈر کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا، لیکن بعض لوگوں نے ان کے گرانے کو ضروری کھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next