اسلام میں انفاق کی اہمیت



دوسرے اعتبار سے چونکہ مختلف حا لات اور مواقع میں انفاق کی اہمیت اور قیمت میں فرق ہوتا ہے اسی وجہ سے بعد کے جملہ میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

”جنہوں نے فتح اور کامیابی سے پہلے راہ خدا میں انفاق کیا اور جہاد کیا ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد اس کام کو انجام دیا: ”لَاْ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ“

اس آیت میں فتح سے مراد کون سی فتح ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض نے اس کو۸ ھء میں فتح مکہ کی طرف اشارہ جانا ہے اور بعض نے ۶ ھء میں فتح حدیبیہ کی طرف ۔

چونکہ سورئہ ”اِنَّا فَتَحْنَاْ لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً“میں کلمہ ”فتح “سے مراد فتح (صلح )حدیبیہ ہے لہٰذا یہاں پر بھی مناسب یہی ہے کہ مراد فتح حدیبیہ (صلح حدیبیہ) ہو، لیکن تعبیر ”قاتل“(جنگ و جہاد کیا ) فتح مکہ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اس لئے کہ صلح حدیبیہ میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی لیکن فتح مکہ میں ایک مختصر سی جنگ ہوئی جو زیادہ مقاومت اور مقابلہ سے رو برونہ ہو سکی ۔

یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں”الفتح“سے مراد مختلف جنگوں میں مسلمانوں کی طرح طرح کی فتح اور کامیابی ہو ۔ یعنی جن لوگو ںنے سخت اوربحرانی حالات میں انفاق کرنے اور راہ خدا میں جاںنثاری کرنے سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی ان لوگوں سے برتر اور افضل ہیں جو طوفان حوادث اور سختیوں کے خاتمہ کے بعد اسلام کی مدد کے لئے دوڑتے ہیں اور آیت کی یہ تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔

اسی لئے مزید تاکید کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ان لوگوں کا مقام اور منزلت ان لوگوں سے برتر اور بالا تر ہے جنہوں نے فتح کے بعد انفاق اور جہاد کیا ”اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْامِنْ بَعْدِوَقَاتَلُوْا“

اس نکتہ کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ بعض مفسرین اس بات پر مصر ہیں کہ انفاق اور راہ خدا میں خرچ کرنا جہاد سے برتر اور افضل ہے اور شاید آیہٴ کریمہ میں”انفاق“ کو جہاد سے پہلے ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہو۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مالی انفاق کو جہاد پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جنگی وسائل ،مقدمات اور اسلحے مال ہی سے خریدے اور فراہم کئے جاتے ہیں ورنہ بلا شک و شبہ جاںنثاری اور راہ خدا میںشہادت کے لئے آمادہ رہنامالی انفاق سے بر تر اور بالا تر ہے ۔

بہرحا ل چونکہ دونوں دستہ (فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد انفاق کرنے والے ) درجات میںفرق کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خاص عنایت کے حقدار ہیں لہٰذا ارشاد فرماتا ہے: خدا وندعالم نے دونوں گروہ سے نیکی کا وعدہ کیا ہے : ” وَکُلاًّ وَّعَدَاللّٰہُ الْحُسْنیٰ “

دونوں دستہ سے نیکی کا وعدہ کرنا خدا کی جانب سے ہر اس شخص کی قدر دانی ہے جو حق کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں کلمہٴ”حسنیٰ“اس آیہٴ کریمہ میںایک عام معنی میںہے جو ہر طرح کے ثواب اور دنیا و آخرت کے جزائے خیر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔

اورچونکہ ہر انسان کے عمل کی قیمت اس کے خلوص کی بنیاد ہو تی ہے لہٰذا پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ اور باخبر ہے”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ“یعنی خداوند عالم تمہارے اعمال کی مقدار اور کیفیت سے بھی آگاہ ہے اور نیت وخلوص سے بھی باخبرہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next