اسلام میں انفاق کی اہمیت



چونکہ اس سے پہلے والی آیہٴ کریمہ میں صاحبانِ تقویٰ سے بہشتکا وعدہ کیا گیا ہے ۔ لہٰذا اس آیت میں ان کا تعارف کراتے ہوئے ان کے چند بلند وبالا صفات حمیدہ کوبیان کیا گیا ہے :

۱۔صاحبان تقویٰ ہر حال میںانفاق کرتے ہیں چاہے راحت وآرام اور وسعت رزق کا زمانہ ہویا سختی اور محرومی کا دورہو ۔”اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ “ صاحبان تقویٰ اپنے اس عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرناان کی روح و جان میںراسخ ہو چکا ہے اسی بنا پر وہ ہر حال میں اس کام کے لئے قدم اٹھاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ صرف راحت اور آسائش میں انفاق کرنا ان کی روح و جان میں رسوخ کی دلیل اور صفت سخاوت کی علامت نہیں ہے بلکہ جو لوگ ہر حال میں مدد اور انفاق کے لئے قدم اٹھاتے ہیں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ صفت ان کے وجود اور ذات میں جڑ پکڑ چکی ہے ۔

ممکن ہے کہ اس مقام پر یہ سوال کیا جائے کہ انسان تنگدستی اور فقر میں کس طرح انفاق کر سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب بہت واضح ہے --؛اس لئے کہ اولاًفقیر اور تنگدست افراد بھی حتی الامکان دوسروں کی مدد کے لئے انفاق کر سکتے ہیں ثانیاًانفاق صرف مال و ثروت سے ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ خدا کی عطا کردہ ہر نعمت میں سے ہو سکتا ہے چاہے مال ودولت ہو یا علم و دانش یا دوسری نعمتیں ۔

اس بیان کے ذریعہ خدا وند عالم عفو ودر گذر ،فداکاری اور سخاوت کے جذبہ کو فقیر اور تنگدست افراد میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے تا کہ انسان بہت سی ایسی بری صفتوں سے محفوظ رہ سکے جو کنجوسی کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں ۔

جو لوگ راہ خدا میں انفاق کو چھوٹا ، معمولی اور حقیر سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر انفاق کو الگ الگ نظر میں رکھا ہے ورنہ اگر انہیں چھوٹی چھوٹی مدد اور انفاق کو جمع کیا جائے ۔ مثال کے طور پر ایک ملک کے تمام افراد۔ فقیر اور مالدار۔ سب کے سب محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے ایک مختصر سی رقم انفاق کریں اور اس کو سماجی اہداف کی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے تو اس کے ذریعہ بہت بڑے بڑے کام انجام دئے جا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انفاق کے معنوی اور اخلاقی اثر کا تعلق انفاق کے حجم اور اس کی کمی اور زیادتی سے نہیں ہے بلکہ انفاق کا اثراور فائدہ ہر حال میں انفاق کرنے والے کوپہنچتا ہے ۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں پر آیہٴ کریمہ میں سب سے پہلے صاحبان تقویٰ کی برجستہ صفت انفاق کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ان صفات کے مقابلے میں ہیں جو سود خوروں اور سرمایہ داروں کے بارے میں اس سے قبل کی آیات میں بیان کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ مال و دولت میں سے انفاق وہ بھی راحت اور سختی کی حالت میں تقویٰ کی واضح نشانی ہے ۔اس کے بعد غصہ کو پی جانے اور عفو وبخشش کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ”وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ“

اور چونکہ یہ ساری چیزیں احسان اور نیکی کے مفہوم میں سمٹی ہوئی ہیں لہٰذا آیت کے آخر میں ارشاد فرماتا ہے : خدا وندعالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

اس سے بڑا فخر اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا انسان سے خوش ہو اور اسے دوست رکھے ۔

۴ . انفاق نہ کر سکنے پر گریہ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next