اسلام میں انفاق کی اہمیت



قرآن مجید مندرجہٴ ذیل آیات میں ان صاحبان ایمان کا تذکرہ کررہا ہے جو راہ خدا میں (جہاد کے لئے)انفاق پر قدرت اور توانائی نہ رکھنے کی وجہ سے آنسو بہا رہے تھے ۔ خدا وندعالم ان کو تسلی دیتے ہوئے انھیںایک ایسی چیز کا حکم دیتا ہے جو انفاق کا جانشین ہےملاحظہ فرمایئے :

< لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلیٰ الْمَرْضیٰ وَلَا عَلیٰ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہ مَا عَلیٰ الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ وَّلَا عَلیٰ الَّذِیْنَ اِذَا مَا اَتُوْکَ لِتَحْمِلَھُمْ قُلْتُ لَآ اَجِدُ مَآ احْمَلَکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ>(سورہٴ توبہ:آیت ۹۱۔۹۲)

جو لوگ کمزور ہیں یا بیمار ہیں یا ان کے پاس راہ خدا میںخرچ کرنے کے لئے کچھ نہیںہے ان کے بیٹھے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ خدا ورسول کے حق میں اخلاص رکھتے ہوں کہ نیک کردار لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

اور ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے جو آپ کے پاس آئے کہ انہیں بھی سواری پر لے لیجئے تو آپ ہی نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس سواری کا انتظام نہیںہے اوروہ آپ کے پاس سے اس عالم میں پلٹے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے اورانہیں اس بات کا رنج تھا کہ ان کے پاس راہ خدامیں خرچ کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے ۔

وضاحت

مذکورہ بالا آیات میں پہلی آیت کے شان نزول کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ایک مخلص اور وفادارصحابی نے آپ سے عرض کی:

اے اللہ کے رسول !میں بوڑھا،نابینا اورضعیف وناتواںہوں اور میرے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میدان جہاد تک لے جائے ۔لہٰذا اگر میں جہاد میں شرکت نہ کروں تو کیا میرا عذر قابل قبول ہے؟ رسول اکرم نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار فرمائی اتنے میں مذکورہآیت نازل ہوئی اور اس طرح کے افراد کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔

اس شان نزول سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نا بینا افراد بھی پیغمبر اسلام کی اطلاع اور اجازت کے بغیر جنگ سے منہ نہیں موڑ سکتے تھے اور اس احتمال کی بنا پر کہ شاید میدان جہاد میںایسے افراد کا وجود مجاہدین کی تشویق کا سبب بنے گا یا کم از کم لشکر کی کثرت کے لئے مفید واقع ہوگا کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اپنے وظیفہ کو دریافت کر لیا کرتے تھے ۔

دوسری آیت کے سلسلے میں بھی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ فقرائے انصار میں سے سات افراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حا ضر ہوئے اور انہوںنے درخواست کی کہ جہاد میں شرکت کیلئے انہیں کوئی سواری دی جائے چونکہ آنحضرت کے پاس کوئی سواری نہیں تھی لہٰذا انہیں منفی جواب دے دیا۔ آنحضرت کا جواب سنتے ہی وہ لوگ آنسوبہاتے ہوئے آپ کی خدمت سے واپس ہوئے اور بعد میں ”بکاؤن“ (بہت زیادہ گریہ کرنے والے)کے نام سے مشہور ہوئے ۔

۵. انفاق کا اجر عظیم



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next