اسلام میں انفاق کی اہمیت



قرآن کریم اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پرتو اور عکس ہے ۔عمل جس قدر وسعت پیدا کرے گا در حقیقت انسان کا وجود بھی اتنا ہی وسیع ہوتا چلاجائے گا ۔

اس سے واضح لفظوں میں قر ا ٓن مجید،انسان کے عمل کو اس کی ذات سے الگ نہیں جانتا ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی حقیقت کی مختلف شکل کے طور پر بیان کرتا ہے لہٰذاکسی چیز کو محذوف مانے بغیربھی یہ آیت قابل تفسیرہے اور ایک عقلی حقیقت کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے نیکی کرنے والے افراد دانوں کے مانند ہیں جو ہر طرف جڑ اور شاخ پھیلا لیتے ہیں اور ہر جگہ کو اپنے زیرِ سایہ لیتے ہیں ۔

قرآن کریم نے ”حَبَّةٍاَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ“ میں اس بابرکت بیج کی صفت کو اس طرح بیان کیا ہے:

اس بیج سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سوسودانے ہوتے ہیں اس طرح دانے سات سو گنا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

کیا یہ ایک فرضی تشبیہ ہے ؟اور ایسا دانہ کہ اس سے سات سو دانے اگیں خارجی وجود نہیں رکھتا ؟ ان دانوں سے مراد ارزن ( چینا ایک قسم کا غلّہ) کے دانے ہیں جن میں یہ تعداد مشاہدہ کی گئی ہے (چونکہ کہا گیا ہے کہ گیہوں اور اس کے مانند دانوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے )لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے جب بہت زیادہ بارش ہوئی تھی تو اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایران کے جنوب میں ایک گاؤں کے ایک کھیت میں گیہوں کی سب سے بڑی بڑی بالیاںپیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں تقریباً چار ہزار گیہوں کے دانے ہیں ۔یہ واقعہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی تشبیہ ایک واقعی اور حقیقی تشبیہ ہے ۔

اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ”وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسع علیم اور اللہ جس

 Ú©Û’ لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے Û”

کلمہ”یُضَاعِفُ“ مصدرضعفسے دوگنا یا چند گنا کے معنی میں ہے ۔

لہٰذا اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے اس برکت کو دوگنا یا چند برابر کر دیتاہے ۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظر ایسے دانے بھی پائے جاتے ہیں جو سات سودانوں سے کئی گنا دانے دیتے ہیں لہٰذا یہ تشبیہ ایک حقیقی تشبیہ ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next