شیعوں کی علمی میراث



مجموعی طور پر انسان کے اعمال کا رابطہ خُدا اور اس کی مخلوق سے ھے کہ جس کے لئے کچھ اصول اورقوانین کی ضرورت ھے اسی اصول اورقوانین کا نام علم فقہ ھے اسلامی قوانین خُدا کی جانب سے ھیں اور خُدا کے ارادے سے ظاھر ھوتے ھیں، البتہ ارادئہ خُدا کھیں بھی فقط قرار دادی اور اعتباری نھیں ھیں بلکہ مصالح و مفاسد تکوینی کی بنیاد پر استوارھوتے ھیں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُدا کے بھیجے ھوئے نبی ھیں ان کا حکم خُدا کا حکم ھے:

< ما ینطق عن الھویٰ اِن ھواِلّا وحی یوحی>[30]

اور آیہٴ< اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم >[31]

 Ú©ÛŒ بنیاد پر خُدا Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ اطاعت Ú©Ùˆ اپنی اطاعت Ú©Û’ ساتھ ذکر کیا Ú¾Û’ØŒ ائمہ معصومین علیھم السلام Ú©ÛŒ باتیں وحی Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نھیں ھیں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ طرح ان Ú©ÛŒ بھی اطاعت واجب Ú¾Û’Û”

عصر صحابہ و تابعین میں فقہ کی موقعیت و وضعیت

 Ø±Ø³ÙˆÙ„ اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ وفات Ú©Û’ بعدحقیقی اسلام کا راستہ متغیرو منحرف Ú¾Ùˆ گیا اور لوگ بر حق جانشین پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور Ú¾Ùˆ گئے، مسائل شرعی میں اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ طرف رجوع کرنے Ù„Ú¯Û’ البتہ چنداصحاب ان میں سے پیش قدم تھے، جیسا کہ ابن سعد کا بیان Ú¾Û’ کہ ابوبکر، عمر، عثمان Ú©Û’ دور خلافت میں حضرت علی علیہ السلام، عبد الرّحمن بن عوف، معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زید بن ثابت فتویٰ دیتے تھے۔[32]

اگر چہ ائمہ اطھار(علیہ السلام) اور کچھ بزرگان شیعہ جیسے ابن عبّاس، ابو سعید خدری بھی فقیہ اور قانون شریعت سے واقف ھونے کی وجہ سے عامہ اور اھل سنّت کے لئے مورد توجہ قرار پائے اور ان کی طرف لوگ رجوع بھی کرتے تھے۔[33]

 Ø§Ù„بتہ اس دور میں شیعہ افراد فقھی مسائل اور اسلامی معارف Ú©Û’ بارے میں اپنے معصوم امام نیز اھل بیت(علیہ السلام) رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ú©ÛŒ جانب مراجعہ کرتے تھے اس Ú©ÛŒ وجہ یہ Ú¾Û’ کہ اس زمانے میں فقھی اصول آج Ú©ÛŒ طرح بیان نھیں ھوئے تھے لیکن صحابہ کا دور ختم ھونے Ú©Û’ بعد تابعین Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ تعداد Ù†Û’ جدیدفقھی مسائل Ú©Û’ لئے فقہ میں کاوش Ú©ÛŒ اور فقیہ کا عنوان ان پرمنطبق ھوا منجملہ انھیں میں سے وہ سات فقھائے مدینہ ھیں Û” [34]

شیعو ں کے درمیان فقہ کی وضعیت وحیثیت

فقہ کی وضعیت شیعوں کے درمیان حضور ِمعصوم(علیہ السلام) کے سبب فرق کر تی ھے اور اس طرح کا اجتھاد جو اھل سنّت کے درمیان رائج تھا وہ شیعوں کے درمیان معنی نھیں رکھتا ھے بلکہ کلّی طور پرکھا جا سکتا ھے کہ فقہ شیعہ اماموں کے حضور کے دوران غیبت صغریٰ کے ختم ھونے تک ایک فرعی چیز تھی جو اجتھاد کے لئے راستہ ھموار کر رھی تھی۔[35]

(ادوار اجتھاد، سازمان انتشارات کیھان، طبع اول، ۱۳۷۲ھ ش،فصل دوم کے بعد سے)

معصوم کے ھوتے ھوئے اور علم کا دروازہ کھلا رھنے کے ساتھ نیز نص تک دسترسی کی بنا پر اجتھادجو اکثر دلائلی ظنّی سے وابستہ ھے اس کی ضرورت محسوس نھیں ھوئی، فقہ شیعہ میں اجتھاد کی بنیاد سب سے پھلے ابن ابی عقیل عمانی کے ذریعہ قرن چھارم کے اوائل میں رکھی گئی، جو شیخ کلینی کے ھم عصر تھے، ان کے بعد محمد بن جنید اس کافی نے ان کے مقصد کوجاری رکھا اور اجتھاد و فقہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا یہ لوگ قد یمین سے معروف ھیں ، شیخ مفید متوفی ۴۱۳ ھ، اورسید مرتضیٰ علم الھدیٰ متوفی ۴۳۶ھ ان لوگوں نے بھی اجتھاد کے راستہ کو ھموار کیا پھر نوبت شیخ طوسی ۴۶۰ھتک پھنچی، شیعہ فقہ کو اس فقیہ بزرگ کے ذریعہ رونق اورترقی ملی انھوں نے حدیث کی دو معتبر کتا ب، تہذیب و استبصار کے علاوہ فقھی کتابیں بھی تالیف کی ھیں اور نھایہ، مبسوط اور خلاف جیسی کتا بیںانھیں کی قلم سے معرض وجود میں آئی ھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next