فیمینزم (حقوق نسواں) کا اسلامی فلسفہ



فلسفہ اسلامی میں عقل نظری خصوصاً اپنے میٹا فیزک (معنوی) اور متعالی پہلووں اور ایسے ہی عقل عملی اپنے عمیق پہلووں میں تمام صُوری اور مادّی تعلّقات اور جنسی عناصر سے عاری ہوتی ہے اور جنسی عناصر  ان Ú©Û’ افعال ورفتار میں اثر انداز نہیں ہوتے Û”

عقل اور جنسیت کا رابطہ

مُقدّمہ

فیمینیزم اپنی پہلی تقسیم بندی میں نظری اور عملی بنیاد پر قابل تفکیک ہے، نظری بنیاد پر ایک نظریہ کی صورت میں یا آئیڈلوجی کے قالب میں یادینی تبیین یا اسی کے مانند دوسری روشوں کے اعتبار سے پیش کی جاتی ہے اور عملی پہلو کی نظر سے ایک اجتماعی حادثہ کی صورت میں بیان کی جاتی ہے اور یہ دونوں پہلو اپنے درمیان تفاوتوں کے علیٰ رغم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اجتماعی حادثات کے حوالے سے فیمینیزم کا رشتہ تاریخی عوامل اور اقتصادی ڈھانچے منجملہ شناخت ومعرفت سے مربوط ہے کہ جس نے معاشرے کی شناخت میں اپنے آپ کو حاضر کیا ہے اور نظری حوالے سے اجتماعی زمینہ سے متاثر ہونے کے علاوہ اپنے سے مربوط فلسفی بنیادوں اور معرفتی ڈھانچوں سے بھی فائدہ اٹھاتی ہے ۔

فیمینیزم، تاریخی لحاظ سے کئی ادوار پر مشتمل ہے اور ہر ایک دور میں ایک طرح کی نظری اور عملی خصوصیات سے مختص رہی ہے ۔ خیال ہے کہ اس میں سب سے زیادہ موٴثر عوامل خصوصاً اس کے نظری پہلو سے مربوط، معرفت شناختی اور فلسفی مبانی ہیں، اس وضاخت کے ساتھ بہت سے فلسفی اور معرفت شناختی حادثات نے فیمینیزم میں جدید فکری تحریک کو جنم دیا ہے اور یہ تحریک اپنی نوبت میں فیمینیزم کے معاشرتی نتائج میں اثر انداز ہوئی ہے، اس تاثیر کا واضح نمونہ فیمینیزم کی تیسری موج میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، فیمینیزم نے تیسری موج کے اعتبار سے ایک ماڈرن لیکن پست نظریہ کے قالب میں ایک فلسفی روپ اختیار کرلیا ہے اور اپنی مدعیات کے دامن کو وسیع کردیا ہے اور یہ امر سب سے زیادہ معرفت شناختی کے تغیّر وتبدل میں ریشہ دوان ہے، جب تک علم کا پوزیئوسٹی نظریہ ماڈرن معاشر کے اوپر حاکم رہا فیمینیزم نظریہ اپنے دامن کو علم کے قلمرو میں داخل نہ کرسکا، پوزیئوسٹی کی نظر میں علم کی معرفت کا حلقہ ایک ایسا حلقہ ہے کہ جو اپنے اندرونی ڈھانچے میں دوسرے معرفتی مراکز سے مستقل شمار ہوتا ہے، ایک عالم اس حلقہ میں داخل ہوتے وقت اپنے تمام ثقافتی تعلّقات کو ایک طرف رکھ دیتا ہے، اس نظریہ کے مطابق علم حاصل کرنے کا مرکز ایک آزمائشگاہ (لیبارٹی) کی مانند ہے کہ جس میں وہیں سے مخصوص لباس درکار ہوتا ہے، ایک محقّق اس کی حدود میں داخل ہوتے وقت اپنے مخصوص لباس منجملہ جنسیت کے لباس کو اتاردیتا ہے اور آزمائشگاہ کے مخصوص لباس کو کہ جو عالموں سے مخصوص ہے زیب تن کرلیتا ہے ۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ادھر جو گفتگوئیں (حلقہٴ دین) کے سلسلے میں ہوئی ہیں انھوں نے علمی معرفت کے متعلق مذکورہ نظریہ کو شک وتردید میں ڈال دیا ہے، انتہا یہ کہ فلسفہٴ علم نے علمی معرفت کو ایک معارفی مجموعہ پر موقوف پایا کہ جو دیگر ثقافتی عرصوں میں تیار ہوتا یا تقسیم ہوتا تھا اور اس نظریہ نے فیمینیزم نظریہ کے حامیوں کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ جنسیت کو بنیاد بناکر علمی معرفت میں ساجھے داری کا اعلان کرسکیں اور اس طرح وہ علمی مراکز کے جانبی مباحث سے آگے بڑھ کر علم کے اندرونی ڈھانچے میں داخل ہوگئے ۔

بلاشبہ فیمینیزم ایسا ریڈیکل ماڈرن لیکن پست نظریہ ہے کہ جو معرفت شناختی کے مبنا سے استفادہ کئے بغیر اپنے وجود کو نہیں منوا سکتا ۔

ہم اس مقالہ میں اس بات کی جستجو میں ہیں کہ اسلامی دائرہ میں جنسیت کی فلسفی اور شناختی بنیادوں کی تحقیق کریں اور اس نظریہ (فیمینیزم) پر جنس وجنسیت کی جو تشریح اور تفسیر ہوسکتی ہے بیان کریں ۔

بحث میں داخل ہونے سے پہلے دو نکتوں کی یاد آوری ضروری ہے:

نکتہٴ اوّل: اس مقالہ میں اسلامی دنیا کے پیش نظر، فلسفی اور معرفتی پہلو مدنظر ہے، نہ کہ معرفت شناسوں اور فلسفیوں کا نظریہ یعنی ہم اس مقالہ میں اسلامی منطق اور فلسفہ کے معرفت شناسی کے وہ نتائج جو اسلامی فلسفہ کے متناسب ہے ان کو جنس وجنسیت کی نسبت سے بیان کریں گے ، نہ کہ فلسفیوں کے شخصی نظریہ سے، کیونکہ فلسفی حضرات خصوصاً اجتماعی اعمال ورفتار کے متعلق، کبھی کبھی ایسی باتیں کرجاتے یا ایسے مواضع اختیار کرلیتے ہیں کہ جو اُن کے فلسفی یا معرفت شناسی مبانی سے وجود میں نہیں آتے بلکہ وہ ان کے مبانی کے بالکل برخلاف ہوتے ہیں ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 next