فیمینزم (حقوق نسواں) کا اسلامی فلسفہ



دوسرا نکتہ: اسلامی دنیا میں فلسفہ، مختلف نظریات اور متعدد فکری مکاتب میں پبش کیا گیا ہے، جیسے حکمت مَشَّا، حکمت اشراق اور حکمت متعالیہ، یہ نظریات اپنے درمیان اختلاف کے باوجود ، ثقافت اور تمدّن اسلامی کے دائرہ میں اور برہانی روش کی اساس پر بہت سے مشترکات سے برخوردار ہیں، ہم اس مقالہ میں نظریاتی اختلافات سے صرف نظر، معرفت اور فلسفہ اسلامی کے مشترکات کا قدر تفصیلی جائزہ لیں گے ۔

پہلا حصّہ: فلسفی بنیادیں

مادّہ اورصورت: مادّہ اور صورت کی بحث فلسفہ کی اُن بحثوں میں سے ہے کہ جو جنسیت کی وضاحت اور انسان کے ساتھ اس کی نسبت میں اثر انداز ہے، یہ بحث فلسفہ کی تاریخ کے جدّی مسائل میں سے ہے، تاریخ گذشتہ اور ایام سالفہ میں علوم طبیعی اور تجربی (سائنس) غالباً ان دونوں اصطلاحوں سے دامن گیر رہے ہیںاور انھیں کی بنیاد پر طبیعی موجودات کی مادّی اور صوری علم کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے، ماڈرن علم کے صاحبان بھی اپنی جدید فلسفی بنیادوں کی اتباع میں صوری اور مادّی علوم کی جدا ئی کو گذشتہ فلسفی حضرات کی علمی میراث کی روش سے علیحدہ جانتے ہوئے اور اپنی تحقیقات وتتبّعات کو اس مبنا سے صرف نظر کرتے ہوئے، صُوَرِ طبیعی کے میزان میں محدود اور مقیّد جانتے ہیں ۔

وہ موجودات جن میں تدریجی تغیّر وتحوّل پایاجاتا ہے، مادّی اور صوری حصّوں سے قابل اثبات ہیں، وہ چیز جو ہمیشہ حرکت اور تغیّر میں ہے، تغیّر کے وقت وہ چیز جدید صورت اختیار کرلیتی ہے اسی لئے تغیّر سے پہلے اس میں جدید صورت کو حاصل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور مادّہ وہ حصّہ ہے کہ جو اس کے علاوہ زمانہٴ تغیّر میں متحرک کی وحدت کی حفاظت بھی کرتا ہے اگر ایک مادّی حصّے میں حرکت نہ پائی جائے تاکہ وہ آنے والی صورت کے ساتھ جمع ہوجائے تو سابق اور لاحق شےٴ کی وحدت منتفی ہوجائے گی، کیونکہ اگر پہلی والی چیز بالکل ختم ہوجائے اور ایک نئی صورت پیدا ہوجائے او ران دونوں میں کوئی مشترک عنصر نہ ہو تو دو بیگانہ چیزوں کی حرکت کے روبرو ہونا پڑے گا اور اس صورت میں شیٴ جدید کی طرف شیٴ سابق کا انتساب اور ان دونوں کے درمیان کا امتداد نیز اصلی حرکت منتفی ہوجائے گی مادّہ اور اس کا صورت کے ساتھ ارتباط کے متعلق بہت سی بحثیں پائی جاتیہیں، بہت سے فسلفی حضرات ان دونوں کی ترکیب کو اتحادی اور بہت سے انضمامی مانتے ہیں ۔

وہ صورت جس Ú©Ùˆ مادّہ قبول کرتا ہے اس میں چند قول ہیں:  مشّاء Ú©ÛŒ حکمت Ú©Û’ طرفدار صُوَر Ú©ÛŒ تبدیلی Ú©Ùˆ کون وفساد Ú©Û’ باب سے جانتے ہیں اس معنی Ú©Û’ ساتھ جدید صورت Ú©Û’ آنے سے سابقہ صورت منعدم ہوجاتی ہے اور حکمت متعالیہ حرکت جوہری Ú©ÛŒ بنیاد پر لبس بعد از لبس Ú©ÛŒ قائل ہے اور جدید صورت Ú©Ùˆ سابقہ صورت کا برتر اور اکمل رتبہ جانتی ہے Û”

اسعتداد کے حامل کے سلسلے میں بھی حکمت اشراق کا حکمت مشّاء اور حکمت متعالیہ سے اختلاف ہے،، شیخ اشراق، صورت جسمیہ کو جدید صورت کی استعداد کا حامل جانتے ہیں لیکن حکمت مشّا اور حکمت متعالیہ استعداد کے حامل کو ایک جوہری حقیقت جانتے ہیں کہ جو قبول کے علاوہ ہر طرح کی فعلیت سے فاقد ہے اور اس حکمت کے طرفدار اس جوہر کو کہ جو کبھی بھی ایک بالفعل صورتِ جوہر کی ہمراہی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی، ہیولیٰ مادّہٴ اوّلی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں اور اُن مجموعوں کو کہ جو اس کی اور صورت جسمیہ یا بعد والی صورت کی ترکیب سے وجود میں آتے ہیں اُن کو مادّہٴ ثانیہ کے عنوان سے جانتےہیں، حکمت اشراق میں مادّہٴ اوّلیہ کے رول کو صورت جسمیہ کو دیا جاتا ہے ۔

ان تمام اختلافات Ú©Û’ باوجود جو مادّہٴ صورت اور ان دونوں Ú©ÛŒ ترکیب میں پائے جاتے ہیں، سب فلاسفہ اس قول پر متفق ہیں کہ متحرک اپنی پہلی وضعیت میں اپنے کردار Ú©Ùˆ  بعد والی اور جدید صورت Ú©Û’ قبول کرنے میں ادا کرتا ہے اور اسی قبول کرنے Ú©ÛŒ ہمراہی سے حرکت وجود میںآتی ہے Û”

جدید صورت کی شناخت کی راہ:

جدید صورت کہ جو علت فاعلی کے راستے مادّہ پر عارض ہوتی ہے اور مادّہ کو قابل افاضہ بناتی ہے غالباً صورت کے خواص اور آثار سے پہچانی جاتی ہے اور جب بھی جسم کے اندر ایسے خواص اور آثار کا مشاہدہ کیا جائے کہ جو گذشتہ وضعیت اور سابقہ صورت کی طرف قابل استناد نہ ہو تو یہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اس نے جدید صورت نوعیہ اختیار کرلی ہے ۔

سب سے سادہ اور سب سے پہلا جوہر کہ جو جدید صورتوں کو قبول کرتا ہے وہ حکمت مشّاء میں وہ ہی مادہٴ اوّلیہ ہے ۔ مادّہٴ اوّلیہ جو قابل محض ہے وہ جسمیہ صورت کو کہ جو تین امتداد (طول وعرض وعمق) کی حامل ہے، قبول کرتا ہے اور کبھی بھی اس کے بغیر موجود نہیں ہوسکتا، اسی لئے مادّہ اور صورت جسمیہ کی جدائی فقط ایک ذہنی جدائی ہے اور خارج میں ہمیشہ یہ دونوں جوہر ایک دوسرے کے ہمراہ اور قرین ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next