فیمینزم (حقوق نسواں) کا اسلامی فلسفہ



عقل نظری بھی اپنے مورد نظر موضوعات کی مناسبت سے چند قسموں پر تقسیم ہوتی ہے ، اگر اس کے مورد نظر موضوعات اصل ہستی اور موجودات کے مبادی عالیہ سے مربوط ہوں تو ان کو عقل میٹاقیرک کہا جاتا ہے اور اگر اس کے مورد نظر موضوعات طبیعی اور مادی امور ہوں اور ان کا کام تجربی موجودات اور ان کے درمیان نسبتوں میں مقید ہو تو اس کو عقل ابزاری یا عقل جزئی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل انسانی کا تجرّد:

اگرچہ عقل، افق طبیعت پر نفس کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے لیکن اس کا حضور علل مادی اور قابلی کا معلول نہیں ہے، مادی اور قابلی علل فقط اس کے حضور اور افاضہ کا زمینہ فراہم کرتی ہیں، عقل کے چاروں مرتبوں ، عقل بالقوہ، عقل بالملکہ، عقل بالفعل، عقل مستفاد، اس کی ایجادی اور فاعلی علت، وہ یا عقول ہیں کہ جو مجرّد تام ہیں، حکماء مشّاء اُس عقل کو کہ جو نفوس مجرّدہ کو موجودات مادّی کو ان کے کمال کے مراتب میں عطا کرتی، یا وہ عقل کہ جو نفوس کو بالملکہ ، بالفعل یا مستفاد کو اپنے افاضات کے پرتو میں گردش دیتی ہے اس کو عقل فعّال کہتے ہیں اور اس کو وہ ہی موجود جانتے ہیں جو شریعت کی زبان میں روح القدس کہلاتی اور اذن الٰہی کے ذریعہ انسان کی تعلیم کا وظیفہ انجام دیتی ہے اور حکماء اشراق افاضہ صور کو عقول مجرّدہ کا کام جانتے ہیں اور ان کو مَثَل کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ۔

فلسفہ اسلامی کے مبنا کے مطاق نفس انسانی ایسی حقیقت واحدہ ہے جو افق جنس وجنسیت سے بالا ہے، یہ نفس اپنے تجرد ذاتی کی وجہ سے کسی بھی ایسی خصوصیت سے جو زمان ومکان کی قید میں آئے متصف نہیں ہوتی، زمان اور مکان مادّہ کے احکام ہیں کہ جو قبولیت کا ظرف ہے، ولادت کے بعد اگر نفس اپنی تکوینی آزادی اور اختیار کو بروئے کار لائے تو اپنے تکامل وتعالی کے راستہ کو طے کرسکتا ہے اور اپنے رابطہ کو عالم مجردات سے قوی بناسکتا ہے اور مولانا روم کی تعبیر کے مطابق وہ مبادی عالیہ اور فرشتوں کی صفوں میں کھڑا ہوسکتا ہے بلکہ ان سے بھی بالا مراحل کو طے کرسکتا ہے ۔

جس نفس نے عالی راستے کو طے کریا ہو وہ عملی پہلو میں بھی اپنے وجود کے مادّی پہلووں کی تنظیم وتدبیر میں مشغول ہوجاتا ہے اور اس صورت میں حالانکہ اس کی تدبیر زمان ومکان کی قید میں واقع ہوتی ہے ایسی معرفت سے فیضیاب ہوتا ہے کہ جن کو حقائق اور عقلانی مبادی سے حاصل کیا ہوتا ہے ۔

فلسفہٴ اسلامی کی رو سے مرد اور عورت اس کے باوجود کہ وہ اپنے وجود کے مادّی حالات کے لحاظ سے متفاوت ہیں اور اس کے علیٰ رغم کے علیحدہ علیحدہ مقام کے مالک لیکن اپنے مادّی اور طبیعی اعمال میں ایک دوسرے کے لئے مکمِّل ہیں، ادراک واحد سے فیضیاب ہوسکتے ہیں، اگر ان کے درمیان کوئی فرق پیش آئے تو وہ ان کی ذاتی توانائی کی طرف اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں، نہیں پلٹتا، بلکہ ان کے شخصی ارادہ اور ضعف یا خارجی موانع کی طرف پلٹتا ہے کہ ان کے اوپر غیر عقلائی ثقافتی حالات تھوپے ہوئے ہوتے ہیں ۔

جنسیت کے عقل پر غلبہ کے شرائط:

اگر نفس اپنی تکوینی آزادی اور اختیار کو بروئے کار نہ لاکر اپنے تکامل اور تعالی کے راستے کو طے نہ کرے اور اپنے امکانات اور توانائی کو اپنے وجود کے مادّی اور پست مراتب سے مربوط اہداف اور آرزووں کی برآوری میں صرف کرے، اس وقت اگر نظری پہلو میں توانائیوں کو بھی حاصل کرچکا ہو اور حقائق کو بھی سمجھ گیا ہو تو تدبیر کے مقام میں اپنے وجود کی مادّی خواہشات کے اعتبار سے عمل کرے گا، ان حالات میں ایک جاہلانہ اور غیر عقلی ثقافت وجود میں آئے گی جس سے بعید نہیں ہے کہ جنسی غریزہ اور خواہشات بھی روابط اجتماعی اور مناسبات کی تدبیر وتنظیم میں دخل انداز ہوں اور نتیجةً جنسیت کا عنصر محوری اور مرکزی عنصر کا عنوان پیدا کرلے ۔

فلسفہٴ اسلامی کے مبنا کے مطابق جو راستہ معاصر فیمینیزم جنسیت کو محور قرار دے کر طے کررہے ہیں اسی مبنا کے مطابق یعنی آدمی کے عقلانی ہویّت اور معرفت عقلی کے قلمرو کے استقلال سے غفلت برتتے ہوئے فیمینیزم کا نظریہ انسان کے مادّی وجود کی حیثیت سے قابل استمرار ہے ۔

فلسفہٴ اسلامی کے مطابق عقل نظری خصوصاً اپنے میٹافیزک اور متعالی پہلووں میں اور اسی طرح اپنی عمیق تہوں اور پہلووں میں تمام تر مادی اور دنیوی تعلقات سے مبّراء ہے اور جنسیت کے عنصر کو ان کے حصول اور ان سے مربوط اعمال میں تاثیر گذاری کی مجال نہیں ہے، نفس انسان مبادی عالیہ سے بلاواسطہ ارتباط کی وجہ سے مبادی عالیہ سے مربوط حقائق کو حاصل کرتا ہے اور وجود انسانی کے مادّی تعلقات کا ان حقائق کی اندرونی عمارت کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن عقل جزئی اور ابزاری کو کہ جو مادّی جہان اور اس سے مربوط اجزاء سے تعلّق رکھتی ہے، وجود انسانی کے مادّی پہلووں سے دو جہت سے اثر قبول کرسکتی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next