فیمینزم (حقوق نسواں) کا اسلامی فلسفہ



مجموعاً مادّہ اور صورت جسمیہ کی ترکیب، بعد والی صورت کے لئے مادّہ کے حکم میں ہے اور بعد والی صورت وہ ہی صورت عنصری ہے اور عنصری صورت کی آمد سبب ہوتی ہے کہ جسم بھی کہ جس میںتین جہتوں سے امتداد کی خاصیت پائی جاتی ہے عُنصری خواص اختیار کرلے، قدیم طبیعات چار عنصروں کے قائل تھے لیکن جدید فیزکس سو (۱۰۰) سے زیادہ عنصروں کی معتقد ہے، مختلف عناصر اپنے باہمی اختلاط کی وجہ سے جدید صورت کے پیدا ہونے کی زمینہ سازی کرتے ہیں صورت جدید کا حضور اس وقت کشف ہوتا ہے جب صُوَرِ عنصری کی طرف ارجاع دینے کے قابل نہ ہو۔ نباتی صورت ایک جدید وحدت اور شخصیت کی حامل ہے کہ جو صورت عنصری میں تقلیل کی قابلیت نہیں رکھتی، یہ شخصیت کچھ آثار جیسے تغذیہ، نمو اور تناسل کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے ۔

نباتی صورت اور نر اور مادہ کی پیدائش:

نبات ایک زندہ ارگانیزم کے عنوان سے تغذیہ اور نمو کے سبباپنی وحدت شخصی کی حفاظت کرتی ہے اور تناسل کی وجہ سے اپنی نوع کے استمرار اور رورم کو ممکن بناتی ہے، نبات، تغذیہ اور نمو کے لئے کچھ اعضاء جیسے جڑ، تنہ اور پتّے رکھتی ہے کہ جواس کے لئے اپنے وظیفہ کو انجام دیتے ہیں اور تناسل کے لئے کچھ اجزاء جیسے پھول، نطفہاور تخم سے استفادہ کرتی ہے اور نر و مادہ کا مسئلہ بھی اسی جگہ سے سامنے آتا ہے اور بعض نباتوں میں کام کی یہ تقسیم شخص واحد کے ارگانیزم کی حدود سے نکل کر اس نوع کی دوصنفوں کے ذمّہ آجاتی ہے اور اسی جگہ سے نوع واحد کے افراد دو صنفوں یعنی مذکر اور موٴنث میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔

حیوانی اور انسانی صورت:

جیسا کہ صورت جسمیہ اس مادہ کے حکم میں ہے کہ جو صورت عنصری کو قبول کرتا ہے یا یہ کہیں کہ عناصر اسی مادہ کے حکم ہیں کہ جو نباتی صورت کو قبول کرتے ہیں لہٰذا موجود نباتی بھی اپنی جگہ صورت حیوانی کا مادّہ ہے اور صورت حیوانی کی خصوصیت احساس اور حرکت ہے جس طرح صورت نبات، نباتی عناصر کی ترکیب سے وجود میں آتی ہے اسی طرح صورت حیوانی اور نباتی مادّہ کی ترکیب سے حیوان وجود میں آتا ہے ۔ نبات اور حیوانات میں سے ہر ایک اپنی مخصوص خصوصیت کی شہادات کی بناپر، نبات یا حیوان کی ایک خاص نوع سے متعلق ہوتے ہیں ۔

وہ موجود جس میں حیوانی کمال پایا جاتا ہے وہ ایک خاص حالات میں دوسری صورت نوعیہ کو کہ جو کمال میں اس سے برتر ہے قبول کرسکتی ہے اور وہ صورت نوعیہ انسانی صورت ہے، انسان کی مخصوص صفت حقائق کلی اور عقلی کا ادراک ہے کہ جس کو نطق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ نطق سے مراد فقط الفاظ کا بیان یا جرئی اور خاص ادراک نہیں ہے بلکہ مفاہیم کلی اور معانی کو نمودار کرنا ہے ۔ وہ مراتب جن کو موجودات طبیعی تغیرات میں حاصل کرتے ہیں اور مذکورہ نظریہ کے مطابق مادہ اوّلیہ اور صورت جسمیہ سے لے کر انسانی صورت تک طے کرتے ہیں اور ایسے ہی وہ مراحل جو مستقبل میں انسان کو درپیش ہوتے ہیں ان کو مولانا روم اس طرح بیان کرتے ہیں:

از جمادی مردم ونامی شدم

وز نما مردم بہ حیوان سرزدم

”جمادی موت سے نباتی زندگی پائی بناتی موت سے حیوانی زندگی عطا ہوئی “

انسان کی ذات اور حقیقت اس کی صورت نوعیہ میں یعنی اس کے نفس ناطقہ اور نفس مجرّد میں مضمر ہے اور اس ذات کو وجود بخشنے والے فاعل کے لئے ضروری ہے کہ مجرّد اور غیر مادّی ہو اور یہ غیر مادی اور مجرد فاعل، ایک ایسی علّت کا محتا ج ہوتا ہے جو مادّی اور قابلی ہوتی ہے اور اس کی علت مادّی وہ موجود ہے کہ جو جسمانی، عنصری اور حیوانی کمالات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور نفس ناطقہ کے حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، مادی موجود اپنے مراحل اور ادوار میں جب سے وہ بصورت غذا انسان کے بدن کو جزء بنتا ہے اور نطفہ علقہ اور جنین کے مراحل کو طے کرنے کے بعد نباتی اور حیوانی کمالات یکے بعد دیگر حاصل کرتا ہے اور جب اس کو روح افاضہ ہوتی ہے ایک جدید صورت اختیار کرلیتا ہے اور اس وقت یہ مادّیصورت، مادّے سے بڑھکر ایک عقلانی اور فوق مادّہ ذات اور ہویّت بن جاتی ہے، مسلم فلاسفہ آیات قرآنی کے زیر اثر اپنے کلام کو اُن آیات کے مطابق قرار دیتے ہیں جو خلقت انسانی کے باب میں وارد ہوئی ہیں <وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِینٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ>(سورہٴ مومنون، آیت۱۲۔۱۴)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next