فیمینزم (حقوق نسواں) کا اسلامی فلسفہ



پہلی جہت: اس Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ کیفیت سے مربوط ہے Û” عقل ابزاری اور جزئی جیسا کہ میٹافیزکی عقل Ú©Û’ احکام وقواعد سے ہدایت حاصل کرتی ہے،  حس اور تجربہ سے بے نیاز نہیں ہے، حس اور خیال، حکمت مشّاء Ú©Û’ مروّجہ مبنا Ú©Û’ مطابق مادّی وجود ہے اسی بناپر انسان Ú©ÛŒ مادّی اور جسمانی خصوصیات منجملہ جنسیت سے مربوط خصوصیات اس امر میں دہالت رکھ سکتی ہیں، البتہ حکمت اشراق اور حکمت متعالیہ Ú©Û’ نظریہ Ú©Û’ مطاق حس وخیال وجود Ú©Û’ لحاظ سے تجرّد برزخی رکھتے ہیں لیکن یہ مبنا بھی مسئلہ میں اثر گذار نہیں ہوسکتا کیونکہ حس اور خیال اگر غیر مادّی اور مجرّد بھی ہوں تب بھی اپنے ادراک میں شدّت Ú©Û’ ساتھ بدن سے وابستہ اور جود انسان Ú©Û’ جسمانی پہلووں میں شمار ہوتے ہیں اسی وجہ سے اس حصّے سے ان Ú©ÛŒ تاثیر پذیری زیادہ ہے Û”

دوسری جہت: عقل ابزاری اور جزئی کا انسان کے مادّی پہلووں سے متاٴثر ہونا معرفت کی اس نوع کے کارآمد پہلو سے مربوط ہے اور ایسے ہی اس کی ضرورتیں متکثر اور جدا جدا ہیں کہ جو زندگی کے مختلف حالات اور اشخاص اور انسانوں کی صلاحیتوں کے ایک جیسی نہ ہونے کی بنیاد پر اجتماعی کام کی تقسیم کے نتیجے میں پیش آتی ہیں، یہ امور سبب ہوتے ہیں تاکہ بعض موارد میں اپنی مختلف ضرورتوں اور جسمانی خصوصیتوں اور شرائط کے اعتبار سے بہت سے علوم وفنون یا بہت سی مناسب مہارتوں کی طرف گامزن ہوں اور نتیجے میں خصوصی آگاہیوں اور مہارت سے فیضیاب ہوجائیں منجملہ ان محصولات میں جو چیز مفید ثابت ہوسکتی ہے وہ عنصر جنسیت ہے ۔

عقل اپنے عالی مراحل میں جس قدر آدمی کے قلمرو ذاتی کی طرف برگشت کرتی ہے اور وجود انسان کے مادی پہلو اور وسائل سے مستقل ہے، اسی قدر انسان کے وجود کے بنیادی اور حیاتی مسائل اور سوالات پر بھی ناظر ہے اور سعادت، اہداف ، آرزووں اور زندگی پر حاکم اقدار کی برآوری میں موٴثر اور دخیل ہے، اسی وجہ سے تمام انسان عقل کے اس حصّے کا فعّال اور نتیجہ خیز ہونے میں اس کے مادی وجود کے پہلووں سے قطع نظر ایک جیسے محتاج ہیں ۔

عقل کے اس حصّے کی فعالیت میں انسان کے وجود کے مادّی پہلو اور عوامل کی تاٴثیر بہت کم ہے اور ثقافتی اور اجتماعی عوامل کی تاثیر بھی فقط تربیتی اور تعلیمی زمینہ فراہم ہونے کی حد تک ہے یعنی اجتماع، انسان کی ہر قشر کے لئے تاٴمّل وتفکر اور فرصت کے مواقع یکساں طور پر فراہم نہیں کرسکتا، یا ان سے دریغ کرتا ہے ۔

عقل اور جنسیت کے رابطہ پر تنقیدی نظریہ:

گذشتہ بیان سے معلوم ہوگیا کہ مسلمان فلاسفہ کا عقل وجنسیت کے درمیان رابطہ کا معرفتی نظریہ ایک انتقادی نظریہ ہے، یعنی وہ لوگ اس کے ضمن میں کہ اشخاص کے جسمانی اور مادّی وجود کے اوضاع واحوال مختلف ہیں اور عقل کے مراتب بھی متفاوت ہیں رابطہ کی مختلف صورتوں کو قبول کرتے ہوئے ثقافتی، تاریخی اور اجتماعی عوامل کے لئے بھی عظیم تاثیر کے قائل ہیں ۔

ان سب کے باوجود تمام اشخاص کے لئے اعتبار واقدار کی متصوَّر صورتوں کے یکساں طور پر قائل نہیں ہیں اور ان میں سے بعض صورتوں کو انسان کی اپنی ذات اور ہویّت سے انحراف کا نتیجہ جانتے ہیں اورثقافتی اور تاریخی عوامل کو کہ جو انسانی پیدا وار ہیں اس میں داخل جانتے ہیں بعبارت دیگر اسلامی فلسفہ رابطہ کی مختلف صورتوں کی وضاحت کرتے ہوئے پہلے یہ کہ ثقافت کے انسانی عامل کو بہت سی ان صورتوں کی تکوین وفعلیت میں دخیل جانتا ہے دوسرے یہ کہ رابطہ کی مطلوب صورت کی بھی تصویر کشی کرتا ہے، لہٰذا یہ دو امر باعث ہوئے کہ اسلامی فلسفہ، موجودہ رابطہ پر ایک تنقیدی نظر ڈالے اور اس تنقید کے ساتھ اپنے مطلوبہ نظریہ کی بھی توجیہ کرے ۔

اسلامی فلسفہ کی نظر سے عقل اپنے عالی مرتبہ میں جسمانی اور جنسی پہلووں سے خالی ہے اور عورت اور مرد اپنی سعادت کے لئے یکساں طور پر ہدایت ہوتے اور اس سے یکساں طور پر استفادہ کے محتاج ہیں ۔ وہ اجتماعی مناسبتیں اور روابط کہ جو انسانی ثقافت کے دائرہ میں تشکیل پاتی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ افراد کے لئے یکساں طور پر اس کے فعلی ہونے کا زمینہ بھی فراہم کریں ۔

 Ù„یکن وجودی لحاظ سے بھی عقل جزئی اور ابزاری انسان Ú©Û’ مادی وجود Ú©Û’ پہلووں سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور استفادہ اور احتیاجات Ú©ÛŒ جہت سے تمام افراد Ú©Û’ لئے یکساں بھی نہیں ہے بلکہ زندگی Ú©Û’ مختلف شعبوں میں تقسیم کار Ú©Û’ اعتبار سے دونوں Ú©Û’ وظیفہ کا الگ الگ ہیں لیکن اجتماع Ú©Û’ مختلف شعبوں میں ان کا متعادل ہونا نہایت ضروری ہے، اس تقسیم Ú©Û’ مراتب میں جنس وجنسیت Ú©Û’ عنصر Ú©Û’ لئے ایک عادلانہ حصّہ منظور کیا جاسکتا ہے Û”

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8